ثمینہ راجہ کے تمام مواد

14 غزل (Ghazal)

    ہم اپنی صورتوں سے مماثل نہیں رہے

    ہم اپنی صورتوں سے مماثل نہیں رہے ایک عمر آئنے کے مقابل نہیں رہے مجبوریاں کچھ اور ہی لاحق رہیں ہمیں دل سے ترے خلاف تو اے دل نہیں رہے اب وقت نے پڑھائے تو پڑھنے پڑے تمام اسباق جو نصاب میں شامل نہیں رہے بے چہرگی کا دکھ بھی بہت ہے مگر یہ رنج ہم تیری اک نگاہ کے قابل نہیں رہے عمر رواں ...

    مزید پڑھیے

    زہر غم کام کر گیا شاید

    زہر غم کام کر گیا شاید کوئی جاں سے گزر گیا شاید دل عجب حالت قرار میں ہے زخم امید بھر گیا شاید چاند اک ساتھ ساتھ چلتا تھا رات کے پار اتر گیا شاید میری منزل پکارتی تھی مجھے لوٹ کر وہ بھی گھر گیا شاید اب جو ہم راہ کوئی چاپ نہیں آخری ہم سفر گیا شاید موت کیوں اس قدر عزیز ہوئی زیست ...

    مزید پڑھیے

    آسیب صفت یہ مری تنہائی عجب ہے

    آسیب صفت یہ مری تنہائی عجب ہے ہر سمت تری یاد کی شہنائی عجب ہے اک بچھڑے شناسا سے ملاقات کے با وصف بکھرے ہوئے لمحوں کی شکیبائی عجب ہے اب سلسلۂ رنج و محن ٹوٹ بھی جائے اس بار تو کچھ طرز پذیرائی عجب ہے اب مجھ پہ کھلا اپنے در و بام کا افسوں یوں ہے کہ مرے گھر کی یہ تنہائی عجب ہے سورج ...

    مزید پڑھیے

    وہ غم قبول ہے جو تری چشم سے ملے

    وہ غم قبول ہے جو تری چشم سے ملے ہم کو ہنر تمام اسی زخم سے ملے روشن ہے ساری زندگی اس دل کی آگ سے اور دل کو آنچ اک سخن گرم سے ملے جب رنگ و نور و نغمہ نہیں اختیار میں اک اعتبار شوق ہی اس بزم سے ملے دل کو لپیٹ لیتا ہے اک ریشمیں خیال جب بھی نگاہ اس نگہ نرم سے ملے اس دل کے سارے خواب محبت ...

    مزید پڑھیے

    شجر عشق ہمیں دار کے مانند بھی ہے

    شجر عشق ہمیں دار کے مانند بھی ہے دل کسی شاخ طرب ناک سے پیوند بھی ہے دل ناداں سے نہیں اہل جہاں سے پوچھو کوئی میثاق محبت پہ رضامند بھی ہے درگزر بام وفا سے کہ جنوں خیز ہوا یہ چراغ ایک شب وعدہ کا پابند بھی ہے رات تنہائی تعاقب میں مسلسل کوئی چاپ اور جب علم ہو آگے یہ گلی بند بھی ...

    مزید پڑھیے

تمام

9 نظم (Nazm)

    ہجر کی عمر بڑھی ہے

    ہجر کی عمر بڑھی ہے تو ہم ان آنکھوں کو اب کسی خواب نگر میں نہیں جانے دیں گے غم سے اب دوستی کر لیں گے خوشی کو نہیں آنے دیں گے ہجر کے وقت میں احوال شب و روز کا کیا پوچھتے ہو اس میں ساعت بھی زمانوں سے بڑی ہوتی ہے دن کھڑا ہوتا ہے جلاد کے مانند سبھی راتوں پر رات ڈائن کی طرح وقت کے ناکے میں ...

    مزید پڑھیے

    سمندر کی جانب سے آتی ہوا میں

    کبھی نیلگوں آسماں کے تلے سبز ساحل پہ ملنے کا وعدہ ہوا تھا سمندر کسی خواب سا خوش نما تھا سمندر کے پہلو میں شہر دل افروز کا ہمہمہ تھا یہ شہر آج اشکوں میں ڈوبا ہوا ہے یہاں سے وہاں تک ہر اک رہ گزر پر اک آسیب کا سامنا ہے نگاہوں کے آگے دھواں ہے سمندر کہاں ہے سمندر کے ساحل پہ ملنے کا وعدہ ...

    مزید پڑھیے

    اک عمر کی دیر

    صفحۂ دل سے ترا نام مٹانے میں مجھے دیر لگی پوری اک عمر کی دیر! اشک غم۔۔۔ قطرۂ خوں۔۔۔ آب مسرت سے مٹا کر دیکھا رنگ دنیا بھی ملا۔۔۔ رنگ تمنا بھی لگا کر دیکھا مکتب عشق میں جتنے بھی سبق یاد کیے یاد رہے عرصۂ زیست میں خوابوں کے خرابے تھے بہت ان خرابوں میں خیالوں کے نگر جتنے بھی آباد ...

    مزید پڑھیے

    تیسری بارش سے پہلے

    اس روز موسم خزاں کی پہلی بارش ہوئی جب اس نے میرے در سے آخری بار قدم نکالا اس نے میری رسوئی سے ایک نوالہ نہ لیا میرے کنویں سے ایک گھونٹ نہ پیا اور میرے ہونٹوں کا ایک بوسہ نہ لیا بلکہ پہلے لئے ہوئے سارے بوسے تھوک دیئے جب موسم خزاں کی دوسری بارش ہوئی تو میری رسوئی میں ایک سانپ ...

    مزید پڑھیے

    اس چہرے پر شام ذرا سی گہری ہے

    یہ آنکھیں بالکل ویسی ہیں جیسی مرے خواب میں آتی تھیں پیشانی تھوڑی ہٹ کر ہے پر ہونٹوں پر مسکان کی بنتی مٹتی لہریں ویسی ہیں آواز کا زیر و بم بھی بالکل ویسا ہے اور ہاتھ جنہیں میں خواب میں بھی چھونا چاہوں تو کانپ اٹھوں یہ ہاتھ بھی بالکل ویسے ہیں یہ چہرہ بالکل ویسا ہے پر اس پر چھائی ...

    مزید پڑھیے

تمام