ثمینہ راجہ کی غزل

    ہم اپنی صورتوں سے مماثل نہیں رہے

    ہم اپنی صورتوں سے مماثل نہیں رہے ایک عمر آئنے کے مقابل نہیں رہے مجبوریاں کچھ اور ہی لاحق رہیں ہمیں دل سے ترے خلاف تو اے دل نہیں رہے اب وقت نے پڑھائے تو پڑھنے پڑے تمام اسباق جو نصاب میں شامل نہیں رہے بے چہرگی کا دکھ بھی بہت ہے مگر یہ رنج ہم تیری اک نگاہ کے قابل نہیں رہے عمر رواں ...

    مزید پڑھیے

    زہر غم کام کر گیا شاید

    زہر غم کام کر گیا شاید کوئی جاں سے گزر گیا شاید دل عجب حالت قرار میں ہے زخم امید بھر گیا شاید چاند اک ساتھ ساتھ چلتا تھا رات کے پار اتر گیا شاید میری منزل پکارتی تھی مجھے لوٹ کر وہ بھی گھر گیا شاید اب جو ہم راہ کوئی چاپ نہیں آخری ہم سفر گیا شاید موت کیوں اس قدر عزیز ہوئی زیست ...

    مزید پڑھیے

    آسیب صفت یہ مری تنہائی عجب ہے

    آسیب صفت یہ مری تنہائی عجب ہے ہر سمت تری یاد کی شہنائی عجب ہے اک بچھڑے شناسا سے ملاقات کے با وصف بکھرے ہوئے لمحوں کی شکیبائی عجب ہے اب سلسلۂ رنج و محن ٹوٹ بھی جائے اس بار تو کچھ طرز پذیرائی عجب ہے اب مجھ پہ کھلا اپنے در و بام کا افسوں یوں ہے کہ مرے گھر کی یہ تنہائی عجب ہے سورج ...

    مزید پڑھیے

    وہ غم قبول ہے جو تری چشم سے ملے

    وہ غم قبول ہے جو تری چشم سے ملے ہم کو ہنر تمام اسی زخم سے ملے روشن ہے ساری زندگی اس دل کی آگ سے اور دل کو آنچ اک سخن گرم سے ملے جب رنگ و نور و نغمہ نہیں اختیار میں اک اعتبار شوق ہی اس بزم سے ملے دل کو لپیٹ لیتا ہے اک ریشمیں خیال جب بھی نگاہ اس نگہ نرم سے ملے اس دل کے سارے خواب محبت ...

    مزید پڑھیے

    شجر عشق ہمیں دار کے مانند بھی ہے

    شجر عشق ہمیں دار کے مانند بھی ہے دل کسی شاخ طرب ناک سے پیوند بھی ہے دل ناداں سے نہیں اہل جہاں سے پوچھو کوئی میثاق محبت پہ رضامند بھی ہے درگزر بام وفا سے کہ جنوں خیز ہوا یہ چراغ ایک شب وعدہ کا پابند بھی ہے رات تنہائی تعاقب میں مسلسل کوئی چاپ اور جب علم ہو آگے یہ گلی بند بھی ...

    مزید پڑھیے

    کب اس سے قبل نظر میں گل ملال کھلا

    کب اس سے قبل نظر میں گل ملال کھلا کسی کی یاد میں لیکن یہ اب کے سال کھلا عجیب آب و ہوا تھی عجیب تھی مٹی سو دل کے گوشے میں اک پھول بے مثال کھلا میں چھو کے دیکھ رہی تھی کہ سبزۂ رخ پر گلاب سرخ کی صورت ترا جمال کھلا میں دم بخود ہی رہی اور شیشۂ جاں پر مثال ریزۂ خورشید اک وصال کھلا سفر ...

    مزید پڑھیے

    دل مانگے ہے موسم پھر امیدوں کا

    دل مانگے ہے موسم پھر امیدوں کا چار طرف سنگیت رچا ہو جھرنوں کا ہم نے بھی تکلیف اٹھائی ہے آخر آپ برا کیوں مانیں سچی باتوں کا جانے اب کیوں دل کا پنچھی ہے گم سم جب پیڑوں پر شور مچا ہے چڑیوں کا رات گئے تک راہ وہ میری دیکھے گا مجھ پر ہے اک خوف سا طاری راہوں کا میرے ماتھے پر کچھ لمحے ...

    مزید پڑھیے

    تو بھی رخصت ہو رہا ہے دھوپ بھی ڈھلنے کو ہے

    تو بھی رخصت ہو رہا ہے دھوپ بھی ڈھلنے کو ہے میرے اندر اک چراغ شام غم جلنے کو ہے کب تلک اس ہجر میں آخر کو رونا چاہیے آنکھ بھی خوں ہو گئی دامن بھی اب گلنے کو ہے گلستاں میں پڑ گئی ہے رسم تجسیم بہار اپنے چہرے پر ہر اک گل خون دل ملنے کو ہے اجنبی سی سرزمیں ناآشنا سے لوگ ہیں ایک سورج تھا ...

    مزید پڑھیے

    شاعری جھوٹ سہی عشق فسانہ ہی سہی

    شاعری جھوٹ سہی عشق فسانہ ہی سہی زندہ رہنے کے لیے کوئی بہانہ ہی سہی خاک کی لوح پہ لکھا تو گیا نام مرا اصل مقصود ترا مجھ کو مٹانا ہی سہی خواب عریاں تو اسی طرح تر و تازہ ہے ہاں مری نیند کا ملبوس پرانا ہی سہی ایک اڑتے ہوئے سیارے کے پیچھے پیچھے کوئی امکان کوئی شوق روانہ ہی سہی کیا ...

    مزید پڑھیے

    خشک ہو گئیں نہریں پیڑ جل چکے ہیں کیا

    خشک ہو گئیں نہریں پیڑ جل چکے ہیں کیا کچھ چمن تھے رستے میں دشت ہو گئے ہیں کیا ایک ایک سے پوچھا ہم نے ایک وحشت میں زندگی کے بارے میں آپ جانتے ہیں کیا التفات مشکل ہے بات تو کیا کیجے ہم نہیں برے اتنے اتنے ہی برے ہیں کیا اپنی زندگانی کو اور رائیگانی کو ہم اٹھائے پھرتے ہیں لوگ دیکھتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2