Sameena Gul

ثمینہ گل

ثمینہ گل کی غزل

    شوق دیدار نے کیا کیا نہ تماشا دیکھا

    شوق دیدار نے کیا کیا نہ تماشا دیکھا جان من کیسے بتائیں تمہیں کیا کیا دیکھا زندگی آگ ہے اور آگ کی خاطر ہم نے دیپ کی آنکھ میں جلتا ہوا چہرا دیکھا میں نے لمحوں میں گزاری ہیں ہزاروں صدیاں وقت کی دھوپ میں پگھلا ہوا دریا دیکھا صبح روشن نے اتاری ہیں ستاری آنکھیں شاخ شمشاد نے گلشن کا ...

    مزید پڑھیے

    کھینچتا ہے کون آخر دائرے در دائرے

    کھینچتا ہے کون آخر دائرے در دائرے دائرے ہی دائرے ہیں دائروں پر دائرے پانیوں کی کوکھ سے بھی پھوٹتا ہے دائرہ دیر تک پھر گھومتے رہتے ہیں اکثر دائرے اس کتاب زیست کے بھی آخری صفحے تلک کھینچ ڈالے قوس نے بھی زندگی پر دائرے جانے کیا کیا گھومتا ہے گرد کی آغوش میں جھانکتے ہیں آسمانوں ...

    مزید پڑھیے

    ایسے خود پر یہاں خدائی کی

    ایسے خود پر یہاں خدائی کی دل کی دیکھی نہ ہی سنائی کی بے قراری سی دل کو ہونے لگی جانے کس نے کہاں رسائی کی وہ ہی صد رنگ ہے جزیرہ نما میرے خوابوں کی کیوں رہائی کی تہمتیں دوسروں پہ دھرتے ہیں بات کرتے ہیں پارسائی کی میری آنکھوں کے جل پڑے تھے دئے آنسوؤں نے یوں جگ ہنسائی کی آج دامن ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2