ایسے خود پر یہاں خدائی کی

ایسے خود پر یہاں خدائی کی
دل کی دیکھی نہ ہی سنائی کی


بے قراری سی دل کو ہونے لگی
جانے کس نے کہاں رسائی کی


وہ ہی صد رنگ ہے جزیرہ نما
میرے خوابوں کی کیوں رہائی کی


تہمتیں دوسروں پہ دھرتے ہیں
بات کرتے ہیں پارسائی کی


میری آنکھوں کے جل پڑے تھے دئے
آنسوؤں نے یوں جگ ہنسائی کی


آج دامن میں پھول ڈالے تھے
جیسے گلشن کی پھر گدائی کی