Salma Javed

سلمیٰ جاوید

سلمیٰ جاوید کی نظم

    رشتہ اپنے ماضی کا

    سیکڑوں سال کا روز اور شب سے ہیں اپنے ماضی کے رشتے جڑے ساحل سندھ پر ایک دخانی کشتی رواں جس میں بیٹھے ہوئے کچھ حسیں نوجواں اک حسیں سا کنارا جو آیا نظر رک گئے لوگ سب اور حیرت سے ہر چیز دیکھا کئے سر اٹھائے کھجوروں کے کچھ پیڑ تھے سرسراتی ہوا پل رہی تھی جو بوئے محبت کی آغوش میں پتھروں ...

    مزید پڑھیے

    شب پرگی

    زمین گول اگر ہے تو گول کیوں ہے یہ میں سوچتی ہوں اسے مستطیل ہونا تھا زمین چاند سے کیوں اس قدر ہے دوری پر اسے قریب بہت ہی قریب ہونا تھا یہ چاند رات کو کیوں نرم روشنی کی کرن بکھیرتا ہے زمیں کے سیاہ چہرے پر اسے تو گرم شعاعیں ہی لے کے آنا تھا سلاخ گرم کی مانند شعلہ رو سورج زمیں پہ آگ ...

    مزید پڑھیے

    لغت کے بے معنی الفاظ

    محبت مروت خلوص اور الفت سخاوت کرم بخشش و مہربانی وفا پیار رحم اور ایثار و شفقت فرائض تعاون اور ایماں کے جذبے جو زینت لغت کے ابھی تک بنے ہیں وجود ان کا لیکن عمل میں کہاں ہے سحر کے بھی پر کیف لمحوں میں ڈھونڈھا چمکتی ہوئی دوپہر میں بھی پرکھا وہ سردی کی ٹھٹھری ہوئی رات میں بھی گرجتی ...

    مزید پڑھیے

    ستارۂ لرزاں

    ابھی تو یوں مری پلکوں پہ جھلملاتا ہے بکھر نہ جائے کہیں ٹوٹ کر یہ دامن میں یہی خیال مجھے بار بار آتا ہے بڑا سکوں بڑی عافیت ہے پلکوں کو حیات ان میں سمٹ آئی ہے زمانے کی خدا رکھے مرے ان در آب داروں کو مژہ پہ ہے مری شبنم بھی اور شرارہ بھی غموں کی بزم کا ہے اک حسین گلدستہ افق کے پار ...

    مزید پڑھیے