رشتہ اپنے ماضی کا
سیکڑوں سال کا روز اور شب سے ہیں اپنے ماضی کے رشتے جڑے ساحل سندھ پر ایک دخانی کشتی رواں جس میں بیٹھے ہوئے کچھ حسیں نوجواں اک حسیں سا کنارا جو آیا نظر رک گئے لوگ سب اور حیرت سے ہر چیز دیکھا کئے سر اٹھائے کھجوروں کے کچھ پیڑ تھے سرسراتی ہوا پل رہی تھی جو بوئے محبت کی آغوش میں پتھروں ...