رشتہ اپنے ماضی کا

سیکڑوں سال کا
روز اور شب سے ہیں
اپنے ماضی کے رشتے جڑے


ساحل سندھ پر
ایک دخانی کشتی رواں
جس میں بیٹھے ہوئے کچھ حسیں نوجواں
اک حسیں سا کنارا جو آیا نظر
رک گئے لوگ سب
اور حیرت سے ہر چیز دیکھا کئے
سر اٹھائے کھجوروں کے کچھ پیڑ تھے
سرسراتی ہوا
پل رہی تھی جو بوئے محبت کی آغوش میں


پتھروں کے بڑے صاف و سادہ مکاں
تھے مکیں جن کے مہر و محبت کے بت
پانی میٹھا بھی تھا اور خوش ذائقہ
ان جوانوں کے دل کو فضا بھا گئی
زندگی جھومی اور ایسے ماحول پر
رک گئی دفعتاً
مندروں کے سنہرے اور اونچے کلس
نقرئی جن کی گھنٹوں کی آواز تھی
کتنی تھی دل پذیر
اور رس سے بھری


نوجوانوں کے پاکیزہ جھرمٹ سے اک
نوجواں نے پکاری فجر کی اذاں
جس میں خوابیدہ تھیں کتنی رعنائیاں


دو صداؤں میں بے لوث سنگم ہوا
دونوں ملتے رہے
دل بھی ملتے گئے
اب اذاں اور ناقوس تھے مشترک


دونوں تھے شادماں
دونوں تھے مطمئن
دونوں ملتے رہے دونوں ملتے گئے
مشترک ایک تہذیب پلتی گئی
تھی جو پاکیزہ تر
اور مہر و مروت کی آئنہ دار
جس سے آئی گلستاں میں اپنے بہار
آج ہر پھول پر یوں جو ہے تازگی
سال ہا سال کی
اپنی محنت کا ثمرہ ہے یہ
اپنے پرکھوں کی اک دین ہے
غم اٹھائے
جنہوں نے مگر
رشتے کو اور مضبوط کرتے رہے
اس کی کڑیوں کو مربوط کرتے رہے
ہم بھی وارث انہیں کے ہیں
اور تم بھی ہو
ٹوٹنے پائے دھاگا نہ یہ دیکھنا


خون دل سے بنائیں گے
موتی جو ہم
در شہوار آنکھوں سے ٹپکائیں جو
گوندھ لیں گے اسی ایک رشتہ سے ہم
کیونکہ ماضی سے اپنے
ہمیں پیار ہے
کیونکہ ماضی ہمارا یہی حال ہے
کوئی آئندہ اس سے الگ ہوگا کب
سیکڑوں سال کے
روز اور شب سے ہیں
اپنے ماضی کے رشتے جڑے