ستارۂ لرزاں

ابھی تو یوں مری پلکوں پہ جھلملاتا ہے
بکھر نہ جائے کہیں ٹوٹ کر یہ دامن میں
یہی خیال مجھے بار بار آتا ہے


بڑا سکوں بڑی عافیت ہے پلکوں کو
حیات ان میں سمٹ آئی ہے زمانے کی
خدا رکھے مرے ان در آب داروں کو


مژہ پہ ہے مری شبنم بھی اور شرارہ بھی
غموں کی بزم کا ہے اک حسین گلدستہ
افق کے پار چمکتا ہوا ستارہ بھی


ستم ستم مری پلکوں پہ وہ بھی رہ نہ سکا
برا ہو تیرا ارے سیل گریۂ بیتاب
کہ اک ستارۂ لرزاں فضا میں ڈوب گیا