خرابی کے نظارے اگ رہے ہیں
خرابی کے نظارے اگ رہے ہیں
منافع میں خسارے اگ رہے ہیں
ترے ہونٹوں پہ کلیاں کھل رہی ہیں
مرے آنکھوں میں تارے اگ رہے ہیں
فلک چومے ہے دھرتی کے لبوں کو
کہ دھرتی سے کنارے اگ رہے ہیں
تمہارے عشق میں جلنے کی خاطر
بدن میں کچھ شرارے اگ رہے ہیں
فلک کے چاند کو چھونے کی ضد میں
رضاؔ جی پر ہمارے اگ رہے ہیں