ہم جیسے پاگل بہتیرے پھرتے ہیں
ہم جیسے پاگل بہتیرے پھرتے ہیں
آپ بھلا کیوں بال بکھیرے پھرتے ہیں
کاندھوں پر زلفیں ایسے بل کھاتی ہیں
جیسے لے کر سانپ سپیرے پھرتے ہیں
چاند ستارے کیوں مجھ سے پنگا لے کر
میرے پیچھے ڈیرے ڈیرے پھرتے ہیں
خوشیاں مجھ کو ڈھونڈ رہی ہیں گلیوں میں
پر غم ہیں کی گھیرے گھیرے پھرتے ہیں
نہ جانے کب ان کے کرم کی بارش ہو
اور نہ جانے کب دن میرے پھرتے ہیں