Saleem Kausar

سلیم کوثر

اہم پاکستانی شاعر ، اپنی غزل ’ میں خیال ہوں کسی اور کا ‘ کے لئے مشہور

Well-known poet from Pakistan famous for his ghazal "main khayaal hoon kisi aur ka…"

سلیم کوثر کی غزل

    مہلت نہ ملی خواب کی تعبیر اٹھاتے

    مہلت نہ ملی خواب کی تعبیر اٹھاتے ہم مارے گئے ٹوٹے ہوئے تیر اٹھاتے مامور تھیں سورج کی گواہی پہ ہوائیں پھر سائے کہاں دھوپ کی جاگیر اٹھاتے تجھ تک بھی پہنچنے کے لیے وقت نہیں تھا کب دولت دنیا ترے رہگیر اٹھاتے بس ایک ہی خواہش سر مقتل ہمیں یاد آئی زنداں سے نکلتے ہوئے زنجیر ...

    مزید پڑھیے

    وہ جو ہم رہی کا غرور تھا وہ سواد راہ میں جل بجھا

    وہ جو ہم رہی کا غرور تھا وہ سواد راہ میں جل بجھا تو ہوا کے عشق میں گھل گیا میں زمیں کی چاہ میں جل بجھا یہ جو شاخ لب پہ ہجوم رنگ صدا کھلا ہے گلی گلی کہیں کوئی شعلۂ بے نوا کسی قتل گاہ میں جل بجھا جو کتاب عشق کے باب تھے تری دسترس میں بکھر گئے وہ جو عہد نامۂ خواب تھا وہ مری نگاہ میں جل ...

    مزید پڑھیے

    یاد کہاں رکھنی ہے تیرا خواب کہاں رکھنا ہے

    یاد کہاں رکھنی ہے تیرا خواب کہاں رکھنا ہے دل میں یاد پھر آنکھوں میں مہتاب کہاں رکھنا ہے وہ کہتا ہے آخری باب عشق مکمل کر لیں اور میں سوچ رہا ہوں پہلا باب کہاں رکھنا ہے حسن کی یکتائی کا بس اتنا احساس ہے مجھ کو کانٹوں کی ترتیب میں ایک گلاب کہاں رکھنا ہے

    مزید پڑھیے

    تم نے سچ بولنے کی جرأت کی

    تم نے سچ بولنے کی جرأت کی یہ بھی توہین ہے عدالت کی منزلیں راستوں کی دھول ہوئیں پوچھتے کیا ہو تم مسافت کی اپنا زاد سفر بھی چھوڑ گئے جانے والوں نے کتنی عجلت کی میں جہاں قتل ہو رہا ہوں وہاں میرے اجداد نے حکومت کی پہلے مجھ سے جدا ہوا اور پھر عکس نے آئینے سے ہجرت کی میری آنکھوں پہ ...

    مزید پڑھیے

    یہ لوگ جس سے اب انکار کرنا چاہتے ہیں

    یہ لوگ جس سے اب انکار کرنا چاہتے ہیں وہ گفتگو در و دیوار کرنا چاہتے ہیں ہمیں خبر ہے کہ گزرے گا ایک سیل فنا سو ہم تمہیں بھی خبردار کرنا چاہتے ہیں اور اس سے پہلے کہ ثابت ہو جرم خاموشی ہم اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں یہاں تک آ تو گئے آپ کی محبت میں اب اور کتنا گنہ گار کرنا ...

    مزید پڑھیے

    نہ کوئی نام و نسب ہے نہ گوشوارہ مرا

    نہ کوئی نام و نسب ہے نہ گوشوارہ مرا بس اپنی آب و ہوا ہی پہ ہے گزارہ مرا مری زمیں پہ ترے آفتاب روشن ہیں ترے فلک پہ چمکتا ہے اک ستارہ مرا جو چاہتا ہے وہ تسخیر کر لے دنیا کو کسی بھی شے پہ نہیں ہے یہاں اجارہ مرا میں ہمکنار ہوا ایک لہر سے اور پھر کنارے ہی میں کہیں گم ہوا کنارہ مرا بس ...

    مزید پڑھیے

    طلسم خانۂ اسباب میرے سامنے تھا

    طلسم خانۂ اسباب میرے سامنے تھا مرا ہی دیکھا ہوا خواب میرے سامنے تھا وہی نہیں تھا جسے دل تلک رسائی تھی کہ یوں تو مجمع احباب میرے سامنے تھا تمام عمر ستارے تلاش کرتا پھرا پلٹ کے دیکھا تو مہتاب میرے سامنے تھا میں اک صدا کے تحیر میں گھر گیا ورنہ کنارا سامنے گرداب میرے سامنے ...

    مزید پڑھیے

    وہ جو آئے تھے بہت منصب و جاگیر کے ساتھ

    وہ جو آئے تھے بہت منصب و جاگیر کے ساتھ کیسے چپ چاپ کھڑے ہیں تری تصویر کے ساتھ صرف زنداں کی حکایت ہی پہ معمور نہیں ایک تاریخ سفر کرتی ہے زنجیر کے ساتھ اب کے سورج کی رہائی میں بڑی دیر لگی ورنہ میں گھر سے نکلتا نہیں تاخیر کے ساتھ تجھ کو قسمت سے تو میں جیت چکا ہوں کب کا شاید اب کے ...

    مزید پڑھیے

    سراسر نفع تھا لیکن خسارہ جا رہا ہے

    سراسر نفع تھا لیکن خسارہ جا رہا ہے تو کیا جیتی ہوئی بازی کو ہارا جا رہا ہے سفر آغاز کرنا تھا جہاں سے زندگی کا ہمیں ان راستوں سے اب گزارا جا رہا ہے یہ کن کے پاس گروی رکھ دیا ہم نے سمندر یہ کن لوگوں کو ساحل پر اتارا جا رہا ہے اسے جو بھی ملا بچ کر نہیں آیا ابھی تک مگر جو بچ گیا ملنے ...

    مزید پڑھیے

    بس اک رستہ ہے اک آواز اور ایک سایا ہے

    بس اک رستہ ہے اک آواز اور ایک سایا ہے یہ کس نے آ کے گہری نیند سے مجھ کو جگایا ہے بچھڑتی اور ملتی ساعتوں کے درمیان اک پل یہی اک پل بچانے کے لیے سب کچھ گنوایا ہے ادھر یہ دل ابھی تک ہے اسیر وحشت صحرا ادھر اس آنکھ نے چاروں طرف پہرہ بٹھایا ہے تمہیں کیسے بتائیں جھوٹ کیا ہے اور سچ کیا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5