ترے سانچے میں ڈھلتا جا رہا ہوں
ترے سانچے میں ڈھلتا جا رہا ہوں
تجھے بھی کچھ بدلتا جا رہا ہوں
نہ جانے تجھ کو بھولا ہوں کہ خود کو
بہر صورت سنبھلتا جا رہا ہوں
طبیعت ہے ابھی طفلانہ میری
کھلونوں سے بہلتا جا رہا ہوں
حقیقت کو مکمل دیکھنا ہے
نظر کے رخ بدلتا جا رہا ہوں
چلا ہے مجھ سے آگے میرا سایہ
سو میں بھی ساتھ چلتا جا رہا ہوں
یہ چاہا تھا کہ پتھر بن کے جی لوں
سو اندر سے پگھلتا جا رہا ہوں
بہت نازاں ہوں محرومی پہ اپنی
اسی پر ہاتھ ملتا جا رہا ہوں
کسی کا وعدۂ فردا نہیں میں
تو کیوں فردا پہ ٹلتا جا رہا ہوں