Salam Machhli shahri

سلام ؔمچھلی شہری

  • 1921 - 1973

رومانی لہجے کے ممتاز مقبول شاعر

One of the prominent popular poets with a romantic flavour.

سلام ؔمچھلی شہری کی نظم

    آگ

    اب قلم میں ایک رنگیں عطر بھر لو تم حسیں پھولوں کے شاعر ہو کوئی ظالم نہ کہہ دے شعلہ احساس کے کاغذ پہ کچھ لکھنے چلا تھا اور کاغذ پہلے ہی اک راکھ سا تھا بات واضح ہی نہیں ہے شاعر گل دائرے سب مصلحت بینی کے اب موہوم سے ہیں بات کھل کر کہہ نہ پائے تم تو بس زیرو رہوگے اب قلم میں آگ بھر ...

    مزید پڑھیے

    زندگی

    وہی فضا وہی چہرے خموش نرسنگ ہوم میں سو رہا تھا کہ کھڑکی کے پاس پیپل سے نسائی نقرئی آواز ہولے ہولے اٹھی بڑی اداؤں سے میرے قریب آنے لگی سحر قریب تھی سورج نکلنے والا تھا میں چاہتا تھا کہ اس صوت نقرئی کو چھوؤں مگر وہ لوٹ گئی پائلوں کے سرگم میں دمک رہا تھا سر آسماں حسیں سورج گھنیرے ...

    مزید پڑھیے

    دھواں

    وہ قہوہ خانے میں آیا اور ہماری میز کے کنارے بن پوچھے ہی بیٹھ گیا ہم باتوں میں کھوئے ہوئے تھے سوچ رہے تھے دنیا کیا ہے کیا یہ اسٹیج ہے جس پر جیون کا ناٹک ہوتا ہے کیا ہم اس بے نام ڈرامے کے ہیں بس فرضی کردار؟ الجھی تھی اپنی گفتار اور اچانک وہ نو وارد سگریٹ کا ایک گہرا سا کش لے کر ...

    مزید پڑھیے

    مجبوریاں

    مجھے نفرت نہیں ہے عشقیہ اشعار سے لیکن ابھی ان کو غلام آباد میں میں گا نہیں سکتا مجھے نفرت نہیں ہے حسن جنت زار سے لیکن ابھی دوزخ میں اس جنت سے دل بہلا نہیں سکتا مجھے نفرت نہیں پازیب کی جھنکار سے لیکن ابھی تاب نشاط رقص محفل لا نہیں سکتا ابھی ہندوستاں کو آتشیں نغمے سنانے دو ابھی ...

    مزید پڑھیے

    بہت دنوں کی بات ہے۔۔۔۔۔

    بہت دنوں کی بات ہے فضا کو یاد بھی نہیں یہ بات آج کی نہیں بہت دنوں کی بات ہے شباب پر بہار تھی فضا بھی خوش گوار تھی نہ جانے کیوں مچل پڑا میں اپنے گھر سے چل پڑا کسی نے مجھ کو روک کر تری ادا سے ٹوک کر کہا تھا لوٹ آئیے مری قسم نہ جائیے نہ جائیے نہ جائیے مجھے مگر خبر نہ تھی ماحول پر نظر ...

    مزید پڑھیے

    مزدور لڑکی

    وہ اک مزدور لڑکی ہے بہت آسان ہے میرے لیے اس کو منا لینا ذرا آراستہ ہو لوں مرا آئینہ کہتا ہے کسی سب سے بڑے بت ساز کا شہکار ہوں گویا میں شہروں کے تبسم پاش نظاروں کا پالا ہوں میں پروردہ ہوں باروں قہوہ خانوں کی فضاؤں کا میں جب شہروں کی رنگیں تتلیوں کو چھیڑ لیتا ہوں میں جب آراستہ خلوت ...

    مزید پڑھیے

    مجھے وہ نظم لکھنی ہے

    مجھے وہ نظم لکھنی ہے کہ ہر انداز موسیقی سے دہرایا کروں جس کو مگر اکتا نہ جاؤں بار بار اپنے ہی گانے سے یوں ہی بس زندگی کے ساز پر گایا کروں جس کو مگر گھبرا نہ جاؤں زندگانی کے فسانے سے مجھے وہ نظم لکھنی ہے کہ جس میں زہرہ و ناہید سب رقصاں تو ہوں لیکن کبھی مزدور کے اندوہ گیں رخسار بھی ...

    مزید پڑھیے

    دھرتی امر ہے

    ذرا آہستہ بول آہستہ دھرتی سہم جائے گی یہ دھرتی پھول اور کلیوں کی سندر سج ہے ناداں گرج کر بولنے والوں سے کلیاں روٹھ جاتی ہیں ذرا آہستہ چل آہستہ دھرتی ماں کا ہردے ہے اسی ہردے میں تیرے واسطے بھی پیار ہے ناداں برا ہوتا ہے جب دھرتی کسی سے تنگ آتی ہے تری آواز جیسے بڑھ رہے ہوں جنگ کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3