مجھے وہ نظم لکھنی ہے
مجھے وہ نظم لکھنی ہے
کہ ہر انداز موسیقی سے دہرایا کروں جس کو
مگر اکتا نہ جاؤں بار بار اپنے ہی گانے سے
یوں ہی بس زندگی کے ساز پر گایا کروں جس کو
مگر گھبرا نہ جاؤں زندگانی کے فسانے سے
مجھے وہ نظم لکھنی ہے
کہ جس میں زہرہ و ناہید سب رقصاں تو ہوں لیکن
کبھی مزدور کے اندوہ گیں رخسار بھی دیکھوں
ہزاروں رقص ہائے دل نشیں پنہاں تو ہوں لیکن
کبھی تلوار کی ہیبت فضا جھنکار بھی دیکھوں
مجھے وہ نظم لکھنی ہے
کہ جس کو موت کی آواز سے نفرت تو ہو لیکن
پیام زندگی کچھ حوصلہ ساماں بھی ہوتا ہو
بہار زندگی غیرت دہ جنت تو ہو لیکن
غریب انسان اس جنت سے کچھ شاداں بھی ہوتا ہو
مجھے وہ نظم لکھنی ہے