Salahuddin Mohammad

صلاح الدین محمد

صلاح الدین محمد کی نظم

    دل کے شیشے کے گھر ہیں

    دل شیشے کے گھر ہیں ان کو مت ٹکراؤ پھر کچھ اتنے چور ملیں گے چہرے بھی آنکھوں سے اوجھل ہوں گے بے حد دور ملیں گے زہریلی تنہائی چاہت میں اترے گی صوت و صدا کی لہروں میں بھی موج طلب کی غار ہلاکت میں اترے گی دل شیشے کے گھر ہیں ان کو مت ٹکراؤ

    مزید پڑھیے

    لا سے خلا تک

    ابوجہل ان پڑھ کہاں تھا کہ ان پڑھ تو نبی تھے جنہیں لا پہ اصرار تھا اور یہ بھی کہ لا سے خلا تک خلا سے پرے بھی خدا کا جہاں تھا کہ معراج آدم میں تکریم آدم خدا لا مکاں تھا ابوجہل اپنے قبیلے میں افضل تھا عالم صفت تھا کہ اجداد نے جن بتوں کو تراشا ابوجہل نے ان کو سجدہ کیا لا کو جانا تماشا

    مزید پڑھیے

    ہم گنہ گار تیرے

    خود سری سے خفا کس لئے چاہتوں کا سفر خود سری ہے حسرتوں کی سلامت روی بے ثمر نا مرادوں کی چارہ گری ہے اور پس پشت تیری برائی کریں تیرے دشمن کہ ہم تن بدن سے طلب گار تیرے اگر نارسا آرزو سے عبارت وفا ہے تو ہو ہم کہ سرشار ہیں وصل سے ہم گنہ گار تیرے

    مزید پڑھیے

    سازش

    سازش کی عجیب سی علامت بولیں تو کہیں مبالغہ ہے چپ ہیں تو ضمیر کی ملامت

    مزید پڑھیے

    شب خون

    آنکھ لگی یا غفلت برتی متوالوں نے رات رہے شب خون مارا کن لوگوں نے کون بتائے کون کہے کہنے کو تو سچے سب تھے سازش کے تاریک گھروندے ارمانوں کی بستی میں نفرت کے نیزے اپنائیں عاشق حسن پرستی میں سچ کہیے تو کس سے کہیے

    مزید پڑھیے

    آنے والی صبح کی باتیں

    گو میرے دل میں اور افق کی لالی میں ہے رشتہ پیار کا پھر بھی ہم ریگ بیاباں میں اس سے مقتل کے سوا کیا اپنائیں یہ ریت جگر گوشے سورج کے جانے کب کس آنے والے عالم میں پھر لالہ و گل بن کر نکھریں اور دور افق کی لالی کے ہم رنگ بنیں آج تو میرے دل کا بس اتنا رشتہ ہے رنگ شفق سے دونوں روشن روپ طلب ...

    مزید پڑھیے