Sajjad Syed

سجاد سید

  • 1950

سجاد سید کی غزل

    ایسی ہوتی ہیں بعض تقدیریں

    ایسی ہوتی ہیں بعض تقدیریں بہتے پانی پہ جیسے تحریریں ریت کے اک گھروندے جیسی ہیں آدمی کی جہاں میں تدبیریں ہم نے تو صرف خواب دیکھے تھے بس میں اپنے کہاں تھیں تعبیریں قصر زر میں سجی ہوئیں دیکھیں مفلسوں بے گھروں کی تصویریں میری قسمت میں ظلمتیں ساری اس کی مٹھی میں ساری تنویریں جی ...

    مزید پڑھیے

    آرزوؤں کا حسیں پیکر تراش

    آرزوؤں کا حسیں پیکر تراش اک سراب صبح کا منظر تراش اک گھروندا ریگ ساحل سے بنا برف کے پتھر سے اک دلبر تراش دیدۂ نمناک سے دریا بہا آہ شعلہ بار سے محشر تراش اس حصار ذات سے باہر نکل گنبد بے در میں تو اک در تراش بحر‌ عشرت میں صدف ملتا نہیں قطرۂ خوں ناب سے گوہر تراش تیغ زنگ آلود کو ...

    مزید پڑھیے

    خیال یار کا روشن جو ہے دیا نہ بجھا

    خیال یار کا روشن جو ہے دیا نہ بجھا رہ حیات میں اس سے ہی ہے ضیا نہ بجھا جو پیاس ہی ہے مقدر مرا تو پھر ساقی پیالہ رہنے دے یہ تشنگی بڑھا نہ بجھا شب وصال ہے دم لے ذرا نمود سحر ٹھہر ابھی سے ستاروں کا سلسلہ نہ بجھا کبھی لگائی تھی تو نے جو دیدہ و دل میں ہے اختیار تجھے آگ یہ بجھا نہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2