ایسی ہوتی ہیں بعض تقدیریں
ایسی ہوتی ہیں بعض تقدیریں
بہتے پانی پہ جیسے تحریریں
ریت کے اک گھروندے جیسی ہیں
آدمی کی جہاں میں تدبیریں
ہم نے تو صرف خواب دیکھے تھے
بس میں اپنے کہاں تھیں تعبیریں
قصر زر میں سجی ہوئیں دیکھیں
مفلسوں بے گھروں کی تصویریں
میری قسمت میں ظلمتیں ساری
اس کی مٹھی میں ساری تنویریں
جی میں آتا ہے توڑ ہی ڈالوں
ساری ہوش و خرد کی زنجیریں
یاد کے تار تار کینوس پر
اب بھی باقی ہیں چند تصویریں
بات سجادؔ صاف کہتا ہے
آپ جو چاہیں کر لیں تفسیریں