خیال یار کا روشن جو ہے دیا نہ بجھا

خیال یار کا روشن جو ہے دیا نہ بجھا
رہ حیات میں اس سے ہی ہے ضیا نہ بجھا


جو پیاس ہی ہے مقدر مرا تو پھر ساقی
پیالہ رہنے دے یہ تشنگی بڑھا نہ بجھا


شب وصال ہے دم لے ذرا نمود سحر
ٹھہر ابھی سے ستاروں کا سلسلہ نہ بجھا


کبھی لگائی تھی تو نے جو دیدہ و دل میں
ہے اختیار تجھے آگ یہ بجھا نہ بجھا


بتا دو اس کو کہ ہر دور کے خداؤں نے
بجھایا لاکھ مگر شعلۂ نوا نہ بجھا