وہ تیری عنایت کی سزا یاد ہے اب تک
وہ تیری عنایت کی سزا یاد ہے اب تک
آیا تھا خدا یاد خدا یاد ہے اب تک
چھلکی ہوئی آنکھوں میں مے سرخ کے ڈورے
زلفوں کی وہ لہرائی گھٹا یاد ہے اب تک
وہ جسم کی خوشبو کی پر اسرار سی لپٹیں
وہ معجزۂ موج صبا یاد ہے اب تک
وہ چاندی کے پانی سے دھلے عارض و رخ پر
کیفیت صد رنگ حنا یاد ہے اب تک
تھی جس کو بہ ہر گام سہارے کی ضرورت
مجھ کو وہ تری لغزش پا یاد ہے اب تک
وہ باتوں ہی باتوں میں بگڑ جانے کے انداز
وہ روٹھ کے مننے کی ادا یاد ہے اب تک
قربت کی تمنا کو سمیٹے ہوئے دوری
وہ اپنی خودی تیری انا یاد ہے اب تک
جو سر بہ ہمہ زعم جھکا تھا ترے آگے
جو دل کہ تھا راضی بہ رضا یاد ہے اب تک
ہلکے سے اشارے پہ وہ جاں دینے کی خواہش
وہ دور جنوں عہد وفا یاد ہے اب تک
کیا تجھ کو وفاؤں کی ادا یاد رہے گی
مجھ کو تو ترا طرز جفا یاد ہے اب تک
اب سختیٔ دوراں کی کڑی دھوپ ہے اور ہم
لیکن ترے کوچے کی ہوا یاد ہے اب تک