Saifuddin Saif

سیف الدین سیف

پاکستانی شاعر اور نغمہ نگار

Pakistani poet and lyricist.

سیف الدین سیف کے تمام مواد

33 غزل (Ghazal)

    جب وجہ سکون جاں ٹھہر جائے

    جب وجہ سکون جاں ٹھہر جائے پھر کیسے دل تپاں ٹھہر جائے منزل کی مسافرو نہ پوچھو مل جائے جسے جہاں ٹھہر جائے اللہ رے خرام ناز ان کا اک بار تو آسماں ٹھہر جائے کیا جانئے قافلہ وفا کا لٹ جائے کہاں کہاں ٹھہر جائے یہ رات یہ ٹوٹتی امیدیں اللہ یہ کارواں ٹھہر جائے ہے موج میں سیفؔ کشتئ ...

    مزید پڑھیے

    شگفت غنچۂ مہتاب کون دیکھے گا

    شگفت غنچۂ مہتاب کون دیکھے گا میں سو گیا تو مرے خواب کون دیکھے گا کب آئیں گی وہ گھٹائیں جنہیں برسنا ہے مرے چمن تجھے شاداب کون دیکھے گا یہ بادہ خوار نہیں دیکھتے حرم ہے کہ دہر تمہاری بزم کے آداب کون دیکھے گا جو شہر ہو گئے غارت وہ کس نے دیکھے ہیں جو ہونے والے ہیں غرقاب کون دیکھے ...

    مزید پڑھیے

    بڑے خطرے میں ہے حسن گلستاں ہم نہ کہتے تھے

    بڑے خطرے میں ہے حسن گلستاں ہم نہ کہتے تھے چمن تک آ گئی دیوار زنداں ہم نہ کہتے تھے بھرے بازار میں جنس وفا بے آبرو ہوگی اٹھے گا اعتبار کوئے جاناں ہم نہ کہتے تھے اسی محفل اسی بزم وفا کے گوشے گوشے میں لٹے گی مستئ چشم غزالاں، ہم نہ کہتے تھے اسی رستے میں آخر وہ کڑی منزل بھی آئے ...

    مزید پڑھیے

    کیا منزل غم سمٹ گئی ہے

    کیا منزل غم سمٹ گئی ہے اک آہ میں راہ کٹ گئی ہے پھر سامنے ہے پہاڑ سی رات پھر شام سے نیند اچٹ گئی ہے پہلو میں یہ کیسا درد اٹھا ہے یہ کون سی راہ کٹ گئی ہے آپ آئے نہیں تو موت کمبخت آ آ کے پلٹ پلٹ گئی ہے اٹھ اٹھ کے مریض غم نے پوچھا کیا ہجر کی رات کٹ گئی ہے پھر سیفؔ ہوائے یاد رفتہ ہر غم ...

    مزید پڑھیے

    عمر گزری مری شیرینئ گفتار کے ساتھ

    عمر گزری مری شیرینئ گفتار کے ساتھ لب ملائے تھے کبھی میں نے لب یار کے ساتھ غم جاناں کی اذیت غم دنیا کا عذاب زندگی میں نے گزاری بڑے آزار کے ساتھ گرد میں ڈوب گیا سلسلۂ شام و سحر وقت بھی چل نہیں سکتا مری رفتار کے ساتھ مری خوددار طبیعت نے بچایا مجھ کو میرا رشتہ کسی دربار نہ سرکار کے ...

    مزید پڑھیے

تمام

5 نظم (Nazm)

    بادۂ نیم رس

    کس قیامت کا تبسم ہے ترے ہونٹوں پر استعاروں میں بھٹکتے ہیں خیالات مرے میں کہ ہر سانس کو اک شعر بنا سکتا ہوں نظم ہونے کو پریشان ہیں جذبات مرے آنکھ جمتی نہیں لہراتے ہوئے قدموں پر کسی نغمے کا تلاطم ہے کہ رفتار تری رقص انگڑائیاں لیتا ہے تری بانہوں میں حیرت آثار ہے کیوں چشم فسوں بار ...

    مزید پڑھیے

    تیرے بعد

    مری نگاہ کو اب بھی تری ضرورت ہے دل تباہ کو اب بھی تری ضرورت ہے خروش نالہ تڑپتا ہے تیری فرقت میں سکوت آہ کو اب بھی تری ضرورت ہے یہ صبح و شام تری جستجو میں پھرتے ہیں کہ مہر و ماہ کو اب بھی تری ضرورت ہے بہار‌‌ زلف پریشاں لیے ہے گلشن میں گل و گیاہ کو اب بھی تری ضرورت ہے زمانہ ڈھونڈ رہا ...

    مزید پڑھیے

    وعدہ

    اس سے پہلے کہ تیری چشم کرم معذرت کی نگاہ بن جائے اس سے پہلے کہ تیرے بام کا حسن رفعت مہر و ماہ بن جائے پیار ڈھل جائے میرے اشکوں میں آرزو ایک آہ بن جائے مجھ پہ آ جائے عشق کا الزام اور تو بے گناہ بن جائے میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا اس سے پہلے کہ سادگی تیری لب خاموش کو گلہ کہہ دے میں تجھے ...

    مزید پڑھیے

    جب ترے شہر سے گزرتا ہوں

    کس طرح روکتا ہوں اشک اپنے کس قدر دل پہ جبر کرتا ہوں آج بھی کارزار ہستی میں جب ترے شہر سے گزرتا ہوں اس قدر بھی نہیں مجھے معلوم کس محلے میں ہے مکاں تیرا کون سی شاخ گل پہ رقصاں ہے رشک فردوس آشیاں تیرا جانے کن وادیوں میں اترا ہے غیرت حسن کارواں تیرا کس سے پوچھوں گا میں خبر تیری کون ...

    مزید پڑھیے

    لوگ کہتے ہیں

    لوگ کہتے ہیں کہ پربت سے نکل کر چشمے کسی کھوئی منزل کی طرف بہتے ہیں اور سر شام ہوا ان کے لئے چلتی ہے جن کے محبوب بہت دور کہیں رہتے ہیں کوئی پیغام نہیں جس کی توقع ہو مجھے کس لیے گوش بر آواز ہوں معلوم نہیں جو کبھی دل میں تمنا تھی وہ آغوش میں ہے اب کدھر مائل پرواز ہوں معلوم نہیں نہیں ...

    مزید پڑھیے