کیا منزل غم سمٹ گئی ہے
کیا منزل غم سمٹ گئی ہے
اک آہ میں راہ کٹ گئی ہے
پھر سامنے ہے پہاڑ سی رات
پھر شام سے نیند اچٹ گئی ہے
پہلو میں یہ کیسا درد اٹھا ہے
یہ کون سی راہ کٹ گئی ہے
آپ آئے نہیں تو موت کمبخت
آ آ کے پلٹ پلٹ گئی ہے
اٹھ اٹھ کے مریض غم نے پوچھا
کیا ہجر کی رات کٹ گئی ہے
پھر سیفؔ ہوائے یاد رفتہ
ہر غم کی نقاب الٹ گئی ہے