Sahir Siyalkoti

ساحر سیالکوٹی

ساحر سیالکوٹی کی غزل

    حسن کو آخر خیال فیض عام آ ہی گیا

    حسن کو آخر خیال فیض عام آ ہی گیا آج کوئی خود بخود بالائے بام آ ہی گیا گردش تقدیر آخر کیف پرور ہو گئی محفل ساقی میں مجھ تک دور جام آ ہی گیا حسن کی ہر پیشکش اب رائیگاں جانے لگی عشق کو آخر خیال انتقام آ ہی گیا کچھ نہ تھا پرواز میں شاید بجز آوارگی خود بخود طائر لپک کر زیر دام آ ہی ...

    مزید پڑھیے

    پہلے تو ذکر گردش آیام آ گیا

    پہلے تو ذکر گردش آیام آ گیا پھر دوستوں کے لب پہ مرا نام آ گیا سورج کہاں سے آج سر شام آ گیا کہہ کر یہ بات کوئی لب بام آ گیا ہوگی کسی کو عیش جوانی کی کچھ خبر اپنے تو سر پہ مفت کا الزام آ گیا کرنا پڑے گا وعدۂ فردا وفا تمہیں ضد پر اگر مرا دل ناکام آ گیا شکر حصول دانہ کرے بھی تو کیا ...

    مزید پڑھیے

    آئیں وہ لاکھ دیکھنے والوں کے سامنے

    آئیں وہ لاکھ دیکھنے والوں کے سامنے اٹھتی ہے آنکھ مہر جمالوں کے سامنے ممکن نہیں جواب تری چشم مست کا یہ فیصلہ ہوا ہے غزالوں کے سامنے تنہا نہ ایک حضرت موسیٰ کو غش ہوا ٹھہرا ہے کون برق جمالوں کے سامنے ہو جائے حسن کو نہ کسی کی نظر کہیں اچھے نہیں ہیں دیکھنے والوں کے سامنے دنیا میں ...

    مزید پڑھیے

    خدایا عشق میں اچھی یہ شرط امتحاں رکھ دی

    خدایا عشق میں اچھی یہ شرط امتحاں رکھ دی لگا کر مہر خاموشی مرے منہ میں زباں رکھ دی جو پوچھو دل سے شے تم نے کہاں اے مہرباں رکھ دی بڑی نخوت سے کہتے ہیں جہاں چاہی وہاں رکھ دی کسی کے جور بے حد پر بھی جب خاموش رہنا تھا تو پھر کیوں اے خدا تو نے مرے منہ میں زباں رکھ دی محبت کا نشاں تک بھی ...

    مزید پڑھیے

    حقیقت میں وہی اک شخص ہے دنیا میں فرزانہ

    حقیقت میں وہی اک شخص ہے دنیا میں فرزانہ جسے تم آئے دن کہتے ہو یہ ہے کوئی دیوانہ بھرم قائم ہے تیرے نام سے دونوں کا دنیا میں حقیقت میں ترا مسکن نہ کعبہ ہے نہ بت خانہ دل شیدا کی فطرت کو کوئی سمجھے تو کیا سمجھے یہ فرزانے کا فرزانہ یہ دیوانے کا دیوانہ محبت نے لگا دی آگ دونوں کو برابر ...

    مزید پڑھیے

    نہیں یہ مژدۂ راحت کسی جواں کے لئے

    نہیں یہ مژدۂ راحت کسی جواں کے لئے شباب کا تو زمانہ ہے امتحاں کے لئے بتا نہ راز محبت کسی کو اے ناداں بہت سے اور بھی ہیں راز رازداں کے لئے جناب شیخ نے مانگی شراب یہ کہہ کر ذرا سی چاہئے اک خاص مہرباں کے لئے خیال برق سے ہم نے جلا دئے خود ہی وہ چار تنکے جو رکھے تھے آشیاں کے لئے ہماری ...

    مزید پڑھیے

    ہے اضطراب دل میں تو دل اضطراب میں

    ہے اضطراب دل میں تو دل اضطراب میں ڈالا ہے تم نے مجھ کو عجب پیچ و تاب میں ڈھونڈیں گے ایک دن مجھے خود جلوہ ہائے حسن دیکھوں گا میں رہیں گے وہ کب تک حجاب میں اک حسن برق پاش کی دن رات ہے تلاش اپنی قضا کو ڈھونڈ رہا ہوں شباب میں ہم نے جنوں کو عقل کہا عقل کو جنوں کیا نکتہ رس تھا عشق ہمارا ...

    مزید پڑھیے

    ہم جو مسجد سے در پیر مغاں تک پہنچے

    ہم جو مسجد سے در پیر مغاں تک پہنچے بڑھ کے یہ بات خدا جانے کہاں تک پہنچے کون کہتا ہے رہے راز محبت پنہاں ہم تو کہتے ہیں کہ یہ بات وہاں تک پہنچے سن سکے کیوں نہ تم آواز شکست دل کی یہ وہ آواز ہے جو گوش گراں تک پہنچے ہجو مے شیخ نے کی توڑ دی میں نے توبہ دل بھی خواہاں تھا کہ یہ بحث یہاں تک ...

    مزید پڑھیے

    مجھے ساقی نے سمجھایا اشاروں ہی اشاروں میں

    مجھے ساقی نے سمجھایا اشاروں ہی اشاروں میں مرے حصے کی بانٹی جائے گی پرہیز گاروں میں جہاں تھے حسن و عشق و عقل و وحشت دل بھی جا پہنچا خدا کے فضل سے اب وہ بھی ہے پانچوں سواروں میں مری بے اختیاری میں بھی ربط و ضبط قائم ہے امڈ آتے ہیں جو آنسو تو بہتے ہیں قطاروں میں دل کم ظرف نے ہم کو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2