پہلے تو ذکر گردش آیام آ گیا
پہلے تو ذکر گردش آیام آ گیا
پھر دوستوں کے لب پہ مرا نام آ گیا
سورج کہاں سے آج سر شام آ گیا
کہہ کر یہ بات کوئی لب بام آ گیا
ہوگی کسی کو عیش جوانی کی کچھ خبر
اپنے تو سر پہ مفت کا الزام آ گیا
کرنا پڑے گا وعدۂ فردا وفا تمہیں
ضد پر اگر مرا دل ناکام آ گیا
شکر حصول دانہ کرے بھی تو کیا کرے
وہ طائر حزیں جو تہ دام آ گیا
پہنچا تھا ان کی بزم میں دل تو بصد امید
کیا جانے کس خیال سے ناکام آ گیا
سن کر جناب شیخ سے توبہ کے فائدے
ہر رند کو خیال مئے و جام آ گیا
کرنی تو تھی شکایت درد جگر مجھے
بے اختیار لب پہ ترا نام آ گیا
اے مرغ دل بتا تو سہی اس کا کیا علاج
دانے سے پیشتر ہی اگر دام آ گیا
برباد کر گئی تری پہلی نظر مجھے
آغاز ہی میں سامنے انجام آ گیا
ساحرؔ جو ذکر شعر و سخن چھڑ گیا کہیں
ہر شخص کی زباں پہ ترا نام آ گیا