صفیہ اریب کی نظم

    سارے جذبوں کا سحر بکھر گیا ہے

    سارے جذبوں کا سحر بکھر گیا ہے سارے رشتوں کا بھرم ٹوٹ گیا ہے میں نے اپنی چاہت کے سوا کچھ بھی نہیں دیکھا کسی بے جان شے پر بھی نظر نہیں ڈالی تمہارے اندر جیتی رہی ہوں تم سے بے خبر ہو کر اپنے آپ سے بھی بے خبر ہو کر میں نے تم میں صرف اپنے آپ کو دیکھا یہ سارا عشق میرا خود اپنی ہی ذات سے ...

    مزید پڑھیے

    خامشی کی عادت ڈال لو

    خامشی کی عادت ڈال لو سکون مل جائے گا بے آواز خامشی ایک بار الفاظ کو توڑ دو معنوں کے کرب سے نجات مل جائے گی ساری جنگیں آپ ہی آپ رک جائیں گی میرا المیہ یہ ہے میں نے الفاظ کو آخری سچائی جانا تھا میری آنکھوں سے اب بوندیں حرف حرف ٹپکتی ہیں

    مزید پڑھیے

    ایلورا کے غاروں میں

    ایلورا کے غاروں میں میں سوچتی ہوں کون سی روحیں بھٹک رہی ہوں گی جسم تو پتھر پہ کھدے ہیں ان کی پتھرائی روحیں یوں لگتا ہے میرے پتھر دل میں پگھل رہی ہیں آنسو بن کر قطرہ قطرہ ٹپک رہی ہیں

    مزید پڑھیے

    نظم

    صحرائے ہستی میں ایک چیز آوارہ بھٹکتی رہی مر گئی پیاس سے زرد رو چمن میں گرد و غبار انگڑائیاں لے رہا ہے خشک پتے منتظر ہیں جنبش یک تار نفس کے اور دیدہ نم ٹکٹکی باندھے راستہ تک رہے ہیں قاصد کا جانے کب رہائی کا پروانہ آئے گا گھٹائیں جھوم کے آتی ہیں گھر کے آنگن پر نہ پوچھو کیسے رستی ...

    مزید پڑھیے

    جسم کی نس نس میں

    جسم کی نس نس میں روایات کے اجلے سفید پر اگ آئے ہیں پھر پر جسم کو قد آدم آئینے میں دیکھنا بڑی جرأت چاہتا ہے پروں میں سر چھپا کر سو رہی ہوں سونے دو

    مزید پڑھیے