Saeed-ul-Zafar Chughtai

سعید الظفر چغتائی

سعید الظفر چغتائی کی نظم

    جہات

    کل کی یادیں مسجدیں موتی کی قلعے لعل کے مرمر کے تاج مورتیں مندر کلیسا ینتر منتر گرتی دیواریں چھتیں سائے میں ان کے دھندلکے دیمکیں جالے غبار آسماں چھوتی عمارت بلند بار دیگر بار دیگر بار بار سر اٹھاتے حادثات شفقتیں مہر و مروت ظلم بے مہری سوارتھ زندگی لیتی ہی رہتی ہے ہمارا ...

    مزید پڑھیے

    کیوں

    اے خدا پھر سے ہمیں جہل کی دولت دے دے تو نے کیوں علم دیا اور جہالت چھینی تو نے کیوں جنت حمقا سے نکالا ہم کو ذہن کو کس لیے ہونے دیا بالغ تو نے آستینوں میں مرے پل کے سپنولے کی طرح ڈس لیے جس نے مرے سارے ہی اوہام کہن آنکھیں چہرے پہ کبھی کو ہیں ملیں کان بھی ہاتھ بھی پاؤں بھی پائے سب ...

    مزید پڑھیے

    رس

    میری تخئیل تری ذات میں رس گھولتی ہے ایک مینار فلک بوس جفا جو سرکش گنگناتا تو نہیں حرف بنا لیتا ہے میرے دل میں کبھی دو حرف جھلک اٹھتے ہیں جیسے مضراب سے پھوٹ آتے ہیں سارنگی میں کون مضراب ہے وہ کون سی سارنگی ہے جو مری روح کے ہر تار میں رس گھولتی ہے گل مہک اٹھتے ہیں جب باد صبا ڈولتی ...

    مزید پڑھیے