جہات

کل کی یادیں
مسجدیں موتی کی
قلعے لعل کے
مرمر کے تاج
مورتیں
مندر
کلیسا
ینتر منتر


گرتی دیواریں
چھتیں
سائے میں ان کے دھندلکے
دیمکیں
جالے
غبار
آسماں چھوتی عمارت بلند
بار دیگر بار دیگر بار بار
سر اٹھاتے حادثات
شفقتیں
مہر و مروت
ظلم
بے مہری
سوارتھ
زندگی لیتی ہی رہتی ہے ہمارا امتحان


انکشاف
ایجاد
افکار و علوم
چہچہاتے ناچتے
بلبل و طاؤس
رس کانوں میں
نور آنکھوں میں
بھرتے گھولتے
ذہن کو آنکھوں کو
دست و پا کو اپنے
کھولتے
گود میں مادر فطرت کی
وہ معصوم طفل
کنمناتا
مسکراتا
کھیلتا
جس کی اک معصوم
دزدیدہ نظر
زندگی کو
دل کشی سے
حسن سے
بھر دیتی ہے
ڈھونڈ لاتے ہیں
اندھیری رات میں
روشنی
اس گناہ اولیں کی
نت نئی
منصوبہ دار
صنعت و حرفت
فن تعمیر
تسخیر جہات