Saeed-ul-Zafar Chughtai

سعید الظفر چغتائی

سعید الظفر چغتائی کی غزل

    سوال پوچھے ہیں شب نے جواب لے آؤ

    سوال پوچھے ہیں شب نے جواب لے آؤ نئی سحر کے لئے آفتاب لے آؤ نہ رات ہے نہ خیالات شب نہ خواب سحر جو دن کی جوت جگا دیں وہ خواب لے آؤ برا نہیں ہے جو لکھ جائیں اب بھی چند ورق جو آج تک ہے ادھوری کتاب لے آؤ نقاب الٹتی ہے چہرے سے روز تازہ سحر نگاہ میں بھی کوئی انقلاب لے آؤ بہار آئے گی گلشن ...

    مزید پڑھیے

    ہوش میں آ کہ بے خبر دور جنوں گزر گیا

    ہوش میں آ کہ بے خبر دور جنوں گزر گیا وہ نہ اب اس کی رہ گزر دور جنوں گزر گیا کھینچتے تھے شباب میں اشہب وقت کی زمام شوق جوان ہے مگر دور جنوں گزر گیا شانۂ فکر لایا ہوں چھین کے حادثات سے گیسوئے زندگی سنور دور جنوں گزر گیا چاہنے والے سب ترے نفع و ضرر کے ہو گئے کیوں نہ اٹھی تری نظر دور ...

    مزید پڑھیے

    مصور اپنے تصور کا ڈھونڈھتا ہے دوام

    مصور اپنے تصور کا ڈھونڈھتا ہے دوام نہ جام جم نہ وصال صنم نہ شہرت و نام حیات جبر مسلسل ہے تو ہے جبر شکن ہر ایک گام پہ آزادگی کا تجھ کو سلام تصورات کے پھولوں میں رنگ بھرتا ہے حقیقتوں کی کڑی دھوپ دیتی ہے انعام سحر بھی ہوگی نسیم سحر بھی گائے گی مگر یہ رات محبت چراغ زہر کے جام شراب ...

    مزید پڑھیے

    تصور کی دہلیز پر تھی کھڑی

    تصور کی دہلیز پر تھی کھڑی کلیجے میں کیوں تیر بن کر گڑی فروزاں ہوئی خلوت ماہتاب مجھے یاد ہے وہ سماں وہ گھڑی جھمکنے لگی عرش اعظم کی جوت نگاہوں پہ اک چھوٹ ایسی پڑی جو چاہا تھا مانگا نہ تھا مل گیا لڑی آنکھ اس سے تو ایسی لڑی کبھی کھلکھلا کر ہنسا بھی کرو لگائی بہت آنسوؤں کی جھڑی

    مزید پڑھیے

    رقص میں ہے جہاں کا جہاں آج کل

    رقص میں ہے جہاں کا جہاں آج کل ماند ہے گردش آسماں آج کل آسماں پر نہیں زہرہ و مشتری ہے زمیں پر ہر اک دل ستاں آج کل نشۂ فصل گل بوئے مے حسن مہ کھنچ کے سب آ گئے ہیں کہاں آج کل منزل نہ فلک مجھ کو آواز دے ہے مری راہ میں کہکشاں آج کل علم کے آلپس پر ہیں طلب کے قدم حوصلے اس قدر ہیں جواں آج ...

    مزید پڑھیے

    صحرا میں ذرہ قطرہ سمندر میں جا ملا

    صحرا میں ذرہ قطرہ سمندر میں جا ملا میں خاک میں ملا تو ملا تجھ کو کیا ملا تعمیر دوزخوں میں ہو شداد کی بہشت جنت کو چھوڑ آئے تو غم دوسرا ملا یہ تو نہیں کہ خواب میں دنیا بدل گئی بیدار جب ہوئے تو تصور نیا ملا کیا کم ہیں اب بھی شہر میں بے‌ مغز و بے لباس سودا تھا ایک سر میں وہ تن سے جدا ...

    مزید پڑھیے

    نہ ہو گر نہیں ان سے ملنے کا یارا

    نہ ہو گر نہیں ان سے ملنے کا یارا خودی ہے سلامت خدا ہے ہمارا بھڑکتا ہے بجھ بجھ کے اکثر دوبارا انوکھا ہے کیا زندگی کا شرارہ اک امید موہوم پر جی رہا ہوں کہ تنکے کا ہے ڈوبتے کو سہارا نگاہ کرم ہو جو رندوں پہ ساقی تو زہر ہلاہل بھی قند گوارا چراغ حرم ہے نہ ہرگز بجھے گا یہ دل شعلۂ عشق ...

    مزید پڑھیے

    ڈوبتے جاتے تھے تارے بادباں روشن ہوا

    ڈوبتے جاتے تھے تارے بادباں روشن ہوا پو پھٹی خورشید ابھرا آسماں روشن ہوا رات کہتی تھی دیوں کی ٹمٹماہٹ کب تلک تیرگی سوئی ضمیر کن فکاں روشن ہوا بے کسی کے درد نے لو دی جل اٹھا اک چراغ رفتہ رفتہ اس سے پھر سارا جہاں روشن ہوا جب سہارا آخری ٹوٹا تو ہمت جاگ اٹھی بجھ گئے شمس و قمر اپنا ...

    مزید پڑھیے