کیوں

اے خدا پھر سے ہمیں جہل کی دولت دے دے
تو نے کیوں علم دیا اور جہالت چھینی
تو نے کیوں جنت حمقا سے نکالا ہم کو
ذہن کو کس لیے ہونے دیا بالغ تو نے
آستینوں میں مرے پل کے سپنولے کی طرح
ڈس لیے جس نے مرے سارے ہی اوہام کہن
آنکھیں چہرے پہ کبھی کو ہیں ملیں
کان بھی
ہاتھ بھی
پاؤں بھی پائے سب نے
دیکھتے سب ہیں
ہر اک بات کو سب جانتے ہیں
اور پامال کیا کرتے ہیں سارے رستے
پھر یہ کیا بات ہے
میں گزرا جو ان راہوں سے
اپنی آنکھوں سے مناظر وہی دیکھے میں نے
جو سبھی دیکھ رہے تھے
جو سبھی نے دیکھے
بے حسی اور سکوں سے
کیوں مرے کان بجے
کیوں مری فکر کو مہمیز ہوئی
اور جاگ اٹھا خیالات میں محشر کا ہجوم
اے خدا پھر سے ہمیں جہل کی دولت دے دے