Saeed Ahmad

سعید احمد

سعید احمد کی نظم

    ہم ذات سے ہم کلامی اور فراق

    سچے خواب اور جھوٹی آنکھیں اندھے رستوں کی ہم راہی انجان تحیر کا پانی اور استفہامی لہجوں کی دو دھاری تلواریں تیری قرب سرائے سے یہ زاد سفر ساتھ لیا ہے رخصت کے رخساروں پر آنسو بن کر گرتے لمحے کے ہاتھوں میں اپنے ہونے کا آئینہ دے میں اس کانچ بدن سے بے نام اندیشوں کا زنگار کھرچ ...

    مزید پڑھیے

    نصف ہجر کے دیار سے

    ہوا کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر جدائیوں کے سفر پہ نکلے تھے تم مگر کیوں رکے ہوئے ہو یقین خفتہ گمان پختہ کے پانیوں پر جہاں پہ اول محبتوں کے کنول کھلے تھے ابھی وہیں ہو! جدائیوں کے سفر پہ جا کر بھی اب تلک تم گئے نہیں ہو! چلے بھی جاؤ چلے بھی جاؤ کہ گمشدہ ذات کے خزینے کی کنجیاں ڈھونڈنی ہیں ...

    مزید پڑھیے

    ذات کی کال کوٹھڑی سے آخری نشریہ

    اب کوئی صحرا نہ اونٹوں کی قطاریں گھنٹیاں سی جگمگاتی خواہشوں کی دھیان کے کہرے میں لپٹی گنگناتی ہیں مگر مضراب آئندہ سفر کے راستوں کے ساز سے ناراض ہیں میں اسی اندھی گلی کی قبر میں مرنے لگا بھاگ نکلی تھی جہاں سے زیست پیدائش کے دکھ دے کر مجھے آنکھ سے چپکے نظاروں کے ہزاروں داغ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2