Saeed Ahmad

سعید احمد

سعید احمد کی نظم

    ادھوری نسل کا پورا سچ

    عمر کا سورج سوا نیزے پہ آیا گرم شریانوں میں بہتے خون کا دریا بھنور ہونے لگا حلقۂ موج ہوا کافی نہیں وحشت ابر بدن کے واسطے آغوش کوئی اور ہو ورنہ یوں مردہ سڑک کے خواب آور سے کنارے بے خیالی میں کسی تھوکے ہوئے بچے کی الجھی سانس میں لپٹی ہوئی یہ زندگی! ذہن پر بار گراں بند قبا کے لمس کا ...

    مزید پڑھیے

    تضادوں سے عبارت

    دکھوں کے خیمے میں بیٹھ کر نارسا خوشی کی خوشی میں ہنسنا طویل و انجان ہجر کی خار زار پگڈنڈیوں پہ چلتے وصال لمحوں کی خوشبوؤں میں رچی کوئی نظم کہہ کے رونا حواس کی دسترس میں ہونا کبھی نہ ہونا انہیں تضادوں سے ذات کے ہاتھ کی لکیروں میں رمز معنی انہی پہ قائم مرے تفکر کے سلسلے سب کلام و ...

    مزید پڑھیے

    ڈوبتے سورج کی سرگوشی

    ڈھیر کر چیوں کے آنکھ میں ہیں لیکن آئنے کا نوحہ ہر کسی قلم کی دسترس سے باہر روشنی کے گھر میں تیرگی کا پتھر کس طرف سے آیا کون ہے وہ آخر جو پس تماشا مسکرا رہا ہے اک سوال ہوتی ہے زندگی نگر کی سرخیاں خبر کی کھوجتی ہے لیکن خواب کے سفر کی ساعتوں پہ قدغن سوچ رہن سر ہے نیند کی سحر جو قریۂ ...

    مزید پڑھیے

    زوال کے آئینے میں زندہ عکس

    جھٹپٹے کے شہر میں بیگانگی کی لہر میں معدوم ہوتی روشنی کے درمیاں زیست کے پاؤں تلے آئے ہوئے لوگ ہیں یا چیونٹیاں تن بدن کی رحل پر مہمل کتابیں زرد چہروں کی کھلیں منظروں کی کھوجتی بینائیاں معذور ہیں یاد رکھنے کی تمنا بھولنے کی آرزو حافظے کی بند مٹھی میں ٹھہرتا کچھ نہیں ہر قدم خواب و ...

    مزید پڑھیے

    معنی کی تلاش میں مرتے لفظ

    صحن میں پھیلی ہے تلخ تر رات کی رانی کی مہک کمرۂ حیرت میں خواب کی شہزادی بال بکھرائے مرے سینے پر کب سے اک خواب ابد میں گم ہے لمس کی آنکھوں میں قوس در قوس طلسمات عجب زندہ ہیں جھڑ چکا ہے لیکن جسم کی شاخ سے چہرے کا پھول زیست کے جوہڑ میں خواہش دریا کے ایک امر لمحے کو سوچنے کی یہ سزا کچھ ...

    مزید پڑھیے

    جب بینائی ساون نے چرائی ہو

    خستگی شہر تمنا کی نہ پوچھ جس کی بنیادوں میں زلزلے موج تہہ آب سے ہیں دیکھ امید کے نشے سے یہ بوجھل آنکھیں دیکھ سکتی ہیں جو آئندہ کا سورج زندہ دھوپ کے پیالے میں زیست کی ہریالی زرد چہرے پہ یہ کیسا ہے پریشان لکیروں کا ہجوم اور کیوں خوف کی بد شکل پچھل پائی کوئی تجھے باہوں میں جکڑنے کو ...

    مزید پڑھیے

    اور دیا جلتا ہے خواب میں

    وہی کائنات کی پھیلتی ہوئی ظلمتیں وہی سورجوں کی ہے بے بسی یہی ایک منظر رو برو (مرے شش جہات کی داستاں) مجھے لمحہ لمحہ نگل رہا ہے مگر کہیں مری خواب رات کے آسمان پہ کوئی ہالۂ نور ہے جو ازل سے تا بہ ابد فضائے فنا میں درج ہے ایسی سطر دوام کی جسے مسجدوں کے اجاڑ طاق ترس گئے جسے ڈھونڈتے کئی ...

    مزید پڑھیے

    بد گمان

    تمہارے گلے میں نئے خواب کے موتیوں کی سنہری سی مالا ہماری نہیں ہے سمندر وہ جس پر تمہارے قدم کشتیاں ہوں ہمیں صرف درس فنا ہے ہمارے لیے تو کسی اجنبی سی صدا کے بھنور سے نکلنا بھی ممکن نہیں ہے ہمیں آشنا سی نگاہوں سے سبزے میں لپٹی ہوا نے بلایا تو ہم گر پڑیں گے خزاں کے شجر سے کوئی آخری ...

    مزید پڑھیے

    چتا میں بیٹھی خواہش

    کہ جلتے بدن کی سرائے سے کچھ فاصلے پر اگر آنکھ میں ایک آنسو لیے تم یہ سوچو کہ دشت تمنا میں جلتا ہوا یہ پڑاؤ تمہاری تھکن کا پڑاؤ ہے شاید تو ہونے کی ہونی سے پوچھوں بتا اب تری خاک کے نم میں زر خیزیاں کس قدر ہیں

    مزید پڑھیے

    سفر لا سفر

    وقت کی زنجیر تو کٹ نہیں سکتی مگر کھول گھڑی دو گھڑی قفل در ذات کا آئینۂ ضبط کو سنگ تمنا سے توڑ اور خوشی سے بہا دل میں رکا سیل درد سوچ ذرا دیر کو گوشت کے ملبوس میں پنجرہ ہیں یہ پسلیاں جس کے عجب سحر میں قید تری روح کا طائر خوش رنگ ہے آنکھ اٹھا کر تو دیکھ بازو کشادہ کیے وہ شجر شش ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2