Saeed Ahmad

سعید احمد

سعید احمد کی غزل

    وہی خرابۂ امکاں وہی سفال قدیم

    وہی خرابۂ امکاں وہی سفال قدیم ہمک رہا ہے کہیں دل میں اک خیال قدیم کھڑا ہوں جیسے ابھی تک ازل کے زینے پر نظر میں ہے وہی نظارۂ جمال قدیم فراق رات میں زندہ رہے کہ زندہ تھی ہماری روح میں سرشارئ وصال قدیم مرا وجود حوالہ ترا ہوا آخر تو کھا گیا نا مجھے تو مرے سوال قدیم یہ حبس وقت یہ لا ...

    مزید پڑھیے

    ہونے کی اک جھلک سی دکھا کر چلا گیا

    ہونے کی اک جھلک سی دکھا کر چلا گیا کھولی تھی ہم نے آنکھ کہ منظر چلا گیا کیا خود کو دیکھنے کا عجب شوق تھا کہ وہ چپ چاپ اٹھ کے سوئے سمندر چلا گیا کن دائروں میں گھومتے ہیں اب خبر نہیں کیوں ہاتھ سے وہ چاک سا چکر چلا گیا پہلے قدم پہ ختم ہوا قصۂ جنوں پہلا قدم ہی دشت برابر چلا گیا ہم ...

    مزید پڑھیے

    حیرت پیہم ہوئے خواب سے مہماں ترے

    حیرت پیہم ہوئے خواب سے مہماں ترے رات چراغوں میں کیوں بجھ گئے امکاں ترے ایک قدم لغزشیں راہ میں آ کر ملیں روٹھ گئے تجھ سے پھر دشت و بیاباں ترے عشق کے اندھے خدا حسن کا رستہ دکھا در پہ ترے آ گئے بے سر و ساماں ترے نشہ تھا کیسا عجب خواب کہانی میں جب آنکھ تھی روشن مری نقش تھے عریاں ...

    مزید پڑھیے

    اک برگ خشک سے گل تازہ تک آ گئے

    اک برگ خشک سے گل تازہ تک آ گئے ہم شہر دل سے جسم کے صحرا تک آ گئے اس شام ڈوبنے کی تمنا نہیں رہی جس شام تیرے حسن کے دریا تک آ گئے کچھ لوگ ابتدائے رفاقت سے قبل ہی آئندہ کے ہر ایک گزشتہ تک آ گئے یہ کیا کہ تم سے راز محبت نہیں چھپا یہ کیا کہ تم بھی شوق تماشا تک آ گئے بیزارئ کمال سے اتنا ...

    مزید پڑھیے

    جب سماعت تری آواز تلک جاتی ہے

    جب سماعت تری آواز تلک جاتی ہے جانے کیوں پاؤں کی زنجیر چھنک جاتی ہے پھر اسی غار کے اسرار مجھے کھینچتے ہیں جس طرف شام کی سنسان سڑک جاتی ہے جانے کس قریۂ امکاں سے وہ لفظ آتا ہے جس کی خوشبو سے ہر اک سطر مہک جاتی ہے مو قلم خوں میں ڈبوتا ہے مصور شاید آنکھ کی پتلی سے تصویر چپک جاتی ...

    مزید پڑھیے

    شورش وقت ہوئی وقت کی رفتار میں گم

    شورش وقت ہوئی وقت کی رفتار میں گم دن گزرتے ہیں ترے خواب کے آثار میں گم کیا عجب تھی وہ فضاؤں میں گھلی بوئے قدیم شہر کا شہر ہوا وحشت اسرار میں گم اس کہانی کا بھی عنوان کوئی حیرت حسن آئینہ عکس میں عکس آئینہ بردار میں گم دیکھ یہ آنکھ تری چھب سے ہوئی خاکستر سن سماعت ہے تری نرمیٔ ...

    مزید پڑھیے

    پتھر کو پوجتے تھے کہ پتھر پگھل پڑا

    پتھر کو پوجتے تھے کہ پتھر پگھل پڑا پل بھر میں پھر چٹان سے چشمہ ابل پڑا جل تھل کا خواب تھا کہ کنارے ڈبو گیا تنہا کنول بھی جھیل سے باہر نکل پڑا آئینے کے وصال سے روشن ہوا چراغ پر لو سے اس چراغ کی آئینہ جل پڑا گزرا گماں سے خط فراموشی یقیں اور آئنے میں سلسلہٗ عکس چل پڑا مت پوچھیے کہ ...

    مزید پڑھیے

    ذکر میرا ہے آسمان میں کیا

    ذکر میرا ہے آسمان میں کیا آ گیا ہوں میں اس کے دھیان میں کیا سب کرشمے تعلقات کے ہیں خاک اڑتی ہے خاکدان میں کیا چاند تارے اتر نہیں سکتے رات کی رات اس مکان میں کیا پھر چلی باد سازگار مگر کچھ رہا بھی ہے بادبان میں کیا زندہ ہے اک قبیلۂ قابیل میں رہوں ایسے خاندان میں کیا

    مزید پڑھیے

    کھلتا ہے یوں ہوا کا دریچہ سمجھ لیا

    کھلتا ہے یوں ہوا کا دریچہ سمجھ لیا خود کو شجر پہ آخری پتا سمجھ لیا بھٹکے ہوئے خیال کی صورت اسے ملے بھولا ہوا امید کا رستا سمجھ لیا اک یہ سوال حل نہیں ہوتا وصال میں کتنا قریب آ گئے کتنا سمجھ لیا ملتی رہے گی خواب کی سوغات خواب میں ہوتا رہے گا طے سفر اپنا سمجھ لیا اٹھنے لگی ہے شام ...

    مزید پڑھیے