ادھوری نسل کا پورا سچ
عمر کا سورج سوا نیزے پہ آیا گرم شریانوں میں بہتے خون کا دریا بھنور ہونے لگا حلقۂ موج ہوا کافی نہیں وحشت ابر بدن کے واسطے آغوش کوئی اور ہو ورنہ یوں مردہ سڑک کے خواب آور سے کنارے بے خیالی میں کسی تھوکے ہوئے بچے کی الجھی سانس میں لپٹی ہوئی یہ زندگی! ذہن پر بار گراں بند قبا کے لمس کا ...