وہی خرابۂ امکاں وہی سفال قدیم
وہی خرابۂ امکاں وہی سفال قدیم ہمک رہا ہے کہیں دل میں اک خیال قدیم کھڑا ہوں جیسے ابھی تک ازل کے زینے پر نظر میں ہے وہی نظارۂ جمال قدیم فراق رات میں زندہ رہے کہ زندہ تھی ہماری روح میں سرشارئ وصال قدیم مرا وجود حوالہ ترا ہوا آخر تو کھا گیا نا مجھے تو مرے سوال قدیم یہ حبس وقت یہ لا ...