صابر ظفر کی غزل

    شام سے پہلے تری شام نہ ہونے دوں گا

    شام سے پہلے تری شام نہ ہونے دوں گا زندگی میں تجھے ناکام نہ ہونے دوں گا اڑتے اڑتے ہی بکھر جائیں پر و بال اے کاش طائر جاں کو تہہ دام نہ ہونے دوں گا بے وفا لوگوں میں رہنا تری قسمت ہی سہی ان میں شامل میں ترا نام نہ ہونے دوں گا کل بھی چاہا تھا تجھے آج بھی چاہا ہے کہ ہے یہ خیال ایسا جسے ...

    مزید پڑھیے

    میں بھی ہوں اک مکان کی حد میں

    میں بھی ہوں اک مکان کی حد میں یعنی زندہ ہوں اپنے مرقد میں خامشی سے یہ زیست کر جاؤ گونجنا کیا زمیں کے گنبد میں بھولتا ہی نہیں کہیں بھی تو میکدے میں رہوں کہ معبد میں وہ بھی کیا خوب ہیں جو پوچھتے ہیں کون سی خوبیاں ہیں مرشد میں فال نامہ ہے زندگی بھی ظفرؔ جی رہا ہوں حروف ابجد میں

    مزید پڑھیے

    مثال سنگ پڑا کب تک انتظار کروں

    مثال سنگ پڑا کب تک انتظار کروں پگھلنے میں جو روانی ہے اختیار کروں خبر نہیں وہاں تو کون سے لباس میں ہو میں کیسے عالم پنہاں کو آشکار کروں برنگ موجۂ خوشبو اڑا اڑا پھرے تو میں اپنے قرب سے کیوں تجھ کو زیر بار کروں میں دیکھتا ہوں اسے کیسے کیسے رنگوں میں کشید رنگ کروں اور بار بار ...

    مزید پڑھیے

    وہ نیند ادھوری تھی کیا خواب ناتمام تھا کیا

    وہ نیند ادھوری تھی کیا خواب ناتمام تھا کیا میں جس کو سوچ رہا تھا خیال خام تھا کیا ادھر سے ہی کوئی گزرا جدھر سے گزرا تو تری مثال کوئی اور خوش خرام تھا کیا ملوں تو کیسے ملوں بے طلب کسی سے میں جسے ملوں وہ کہے مجھ سے کوئی کام تھا کیا اسی کے ساتھ رہا جس نے تجھ سے نفرت کی تری نظر میں ...

    مزید پڑھیے

    میں سوچتا ہوں جسے آشنا بھی ہوتا ہے

    میں سوچتا ہوں جسے آشنا بھی ہوتا ہے مگر خیال سے وہ ماورا بھی ہوتا ہے سوائے شاعری زنداں میں کچھ کیا ہی نہیں وگرنہ بند قفس کھولنا بھی ہوتا ہے زیادہ تر میں عناصر سے دور دیکھوں اسے وہ خاک و آتش و آب و ہوا بھی ہوتا ہے میں ٹوٹ جاتا ہوں اور دور جا بکھرتا ہوں اگر جدائی کا صدمہ ذرا بھی ...

    مزید پڑھیے

    عکس پانی میں اگر قید کیا جا سکتا

    عکس پانی میں اگر قید کیا جا سکتا عین ممکن تھا میں اس شخص کو اپنا سکتا کاش کچھ دیر نہ پلکوں پہ ٹھہرتی شبنم میں اسے صبر کا مفہوم تو سمجھا سکتا بے سہارا کوئی ملتا ہے تو دکھ ہوتا ہے میں بھی کیا ہوں کہ کسی کام نہیں آ سکتا کتنی بے سود جدائی ہے کہ دکھ بھی نہ ملا کوئی دھوکہ ہی وہ دیتا کہ ...

    مزید پڑھیے

    میں نے گھاٹے کا بھی اک سودا کیا

    میں نے گھاٹے کا بھی اک سودا کیا جس سے جو وعدہ کیا پورا کیا اپنی یادیں اس سے واپس مانگ کر میں نے اپنے آپ کو یکجا کیا کاش اس پر چل بھی سکتا میں کبھی عمر بھر ہموار جو رستہ کیا صلح کا پیماں کیا ہر شخص سے اور اپنے آپ سے جھگڑا کیا عشق میں اک شخص کیا بچھڑا ظفرؔ میں نے ہر پرچھائیں کا ...

    مزید پڑھیے

    ہم سفر کوئی نہیں تو شور و شر کس کے لئے

    ہم سفر کوئی نہیں تو شور و شر کس کے لئے اے مسافر یہ صدائے رہ گزر کس کے لئے خود سے اب تک باز رکھا میں نے اپنے آپ کو مر تو جانا تھا مجھے مرتا مگر کس کے لیے کون آیا ہے مرے پیچھے یہ کیسا وہم ہے میں ٹھہر جاتا ہوں ہر اک موڑ پر کس کے لیے یہ جو رنگ نا مرادی کھل رہا ہے چار سو اے خزاں اس کا سبب ...

    مزید پڑھیے

    یہاں جو پیڑ تھے اپنی جڑوں کو چھوڑ چکے

    یہاں جو پیڑ تھے اپنی جڑوں کو چھوڑ چکے قدم جماتی ہوئی سب رتوں کو چھوڑ چکے کوئی تصور زنداں بھی اب نہیں باقی ہم اس زمانے کے سب دوستوں کو چھوڑ چکے بھٹک رہے ہیں اب اڑتے ہوئے غبار کے ساتھ مسافر اپنے سبھی راستوں کو چھوڑ چکے نکل چکے ہیں ترے روز و شب سے اب آگے دنوں کو چھوڑ چکے ہم شبوں کو ...

    مزید پڑھیے

    لہو میں ناچتی ہمیشگی اداس ہو کے رہ گئی

    لہو میں ناچتی ہمیشگی اداس ہو کے رہ گئی نہال کرنے والی نرم جھیل پیاس ہو کے رہ گئی وہ لذتوں بھری محبتوں بھری ملن کی ایک شب کبھی نہ پوری ہونے والی کوئی آس ہو کے رہ گئی سمجھ رہا تھا میں جسے سہاگ رات کی وشال رت مرے قریب آتے آتے وہ قیاس ہو کے رہ گئی ہرے لباس میں لگی بھلی وہ ایک دودھیا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4