صابر ظفر کی غزل

    میں ایک ہاتھ تری موت سے ملا آیا

    میں ایک ہاتھ تری موت سے ملا آیا ترے سرہانے اگربتیاں جلا آیا مہکتے باغ سا اک خاندان اجاڑ دیا اجل کے ہاتھ میں کیا پھول کے سوا آیا ترا خیال نہ آیا سو تیری فرقت میں میں رو چکا تو مرے دل کو صبر سا آیا مثال کنج قفس کچھ جگہ تھی تیرے قریب میں اپنے نام کی تختی وہاں لگا آیا مکان اپنی جگہ ...

    مزید پڑھیے

    ستارے سو گئے تو آسماں کیسا لگے گا

    ستارے سو گئے تو آسماں کیسا لگے گا جہان تیرگی میں یہ جہاں کیسا لگے گا بچھڑ کے ساحلوں سے موج دل کیسی لگے گی بکھر کے آندھیوں میں بادباں کیسا لگے گا ٹھہر جائیں گی جب یہ کشتیاں کیسی لگیں گی گزر جائے گا جب آب رواں کیسا لگے گا عمارت ڈھہ چکی ہوگی جو سانسیں ٹوٹنے سے تو پھر وہ سایۂ دیوار ...

    مزید پڑھیے

    یہ سوچ کے راکھ ہو گیا ہوں

    یہ سوچ کے راکھ ہو گیا ہوں میں شام سے صبح تک جلا ہوں جس دل میں پناہ ڈھونڈھتا تھا اب اس سے پناہ مانگتا ہوں پہلے بھی خدا کو مانتا تھا اور اب بھی خدا کو مانتا ہوں وہ جاگ رہا ہو شاید اب تک یہ سوچ کے میں بھی جاگتا ہوں اے میرا خیال رکھنے والے کیا میں ترے ذہن میں بسا ہوں مرتا ہوں کہ مر ...

    مزید پڑھیے

    محسوس لمس جس کا سر رہ گزر کیا

    محسوس لمس جس کا سر رہ گزر کیا سایا تھا وہ اسی کا جسے ہم سفر کیا کچھ بے ٹھکانہ کرتی رہیں ہجرتیں مدام کچھ میری وحشتوں نے مجھے در بدر کیا رہنا نہیں تھا ساتھ کسی کے مگر رہے کرنا نہیں تھا یاد کسی کو مگر کیا تو آئنہ بھی آپ تھا اور عکس بھی تھا آپ تیرے جمال ہی نے تجھے خوش نظر کیا وہ جس ...

    مزید پڑھیے

    رات کو خواب ہو گئی دن کو خیال ہو گئی

    رات کو خواب ہو گئی دن کو خیال ہو گئی اپنے لیے تو زندگی ایک سوال ہو گئی ڈال کے خاک چاک پر چل دیا ایسے کوزہ گر جیسے نمود خشک و تر رو بہ زوال ہو گئی پھول نے پھول کو چھوا جشن وصال تو ہوا یعنی کوئی نباہ کی رسم بحال ہو گئی تجھ کو کہاں سے کھوجتا جسم زمیں پہ بوجھ تھا آخر اسی تکان سے روح ...

    مزید پڑھیے

    نگاہ کرنے میں لگتا ہے کیا زمانہ کوئی

    نگاہ کرنے میں لگتا ہے کیا زمانہ کوئی پیمبری نہ سہی دکھ پیمبرانہ کوئی اک آدھ بار تو جاں وارنی ہی پڑتی ہے محبتیں ہوں تو بنتا نہیں بہانہ کوئی میں تیرے دور میں زندہ ہوں تو یہ جانتا ہے ہدف تو میں تھا مگر بن گیا نشانہ کوئی اب اس قدر بھی یہاں ظلم کو پناہ نہ دو یہ گھر گرا ہی نہ دے دست ...

    مزید پڑھیے

    واقف خود اپنی چشم گریزاں سے کون ہے

    واقف خود اپنی چشم گریزاں سے کون ہے مانوس اب مرے دل ویراں سے کون ہے کس کو خبر ہے کس گھڑی آنکھیں چھلک پڑیں اب آشنا تہیۂ طوفاں سے کون ہے دیکھیں جسے خلل ہے اسی کے دماغ میں سرشار اب تصور جاناں سے کون ہے وہ ظلم شہر میں ہے کہ اندھیر ہے کوئی وابستہ رسم جشن چراغاں سے کون ہے دیکھو جسے ...

    مزید پڑھیے

    چھانے ہوں گے صحرا جس نے وہ ہی جان سکا ہوگا

    چھانے ہوں گے صحرا جس نے وہ ہی جان سکا ہوگا مٹی میں ہم جیسے ملے ہیں کم کوئی خاک ہوا ہوگا الٹے سیدھے گرتے پڑتے چل پڑتے ہیں اس لیے ہم منزل پر لے جانے والا کوئی تو نقش پا ہوگا اتنی سج دھج سے جو چلے تھے قافلے وہ ہیں ٹھہر گئے ہوگا ہوائے صحرا جیسا آگے جو بھی گیا ہوگا کچھ ہونے سے انہونے ...

    مزید پڑھیے

    نظر سے دور ہیں دل سے جدا نہ ہم ہیں نہ تم

    نظر سے دور ہیں دل سے جدا نہ ہم ہیں نہ تم گلہ کریں بھی تو کیا بے وفا نہ ہم ہیں نہ تم ہم اک ورق پہ تو ہیں دو حروف کی صورت مگر نصیب کا لکھا ہوا نہ ہم ہیں نہ تم ہماری زندگی پرچھائیوں کی خاموشی قریب لاتی ہے جو وہ صدا نہ ہم ہیں نہ تم ہم ایک ساتھ ہیں جب سے یہ روگ ہیں تب سے کسی بھی روگ کی ...

    مزید پڑھیے

    دریچہ بے صدا کوئی نہیں ہے

    دریچہ بے صدا کوئی نہیں ہے اگرچہ بولتا کوئی نہیں ہے میں ایسے جمگھٹے میں کھو گیا ہوں جہاں میرے سوا کوئی نہیں ہے رکوں تو منزلیں ہی منزلیں ہیں چلوں تو راستہ کوئی نہیں ہے کھلی ہیں کھڑکیاں ہر گھر کی لیکن گلی میں جھانکتا کوئی نہیں ہے کسی سے آشنا ایسا ہوا ہوں مجھے پہچانتا کوئی نہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4