صابر ظفر کی غزل

    ہجر سمندر نہیں وصل کنارہ نہیں

    ہجر سمندر نہیں وصل کنارہ نہیں کون ہے کس موڑ پر کوئی اشارہ نہیں اس سے بچھڑ کے اگر ہم ہیں تماشا تو کیا اس کے سوا تو کوئی محو نظارہ نہیں چھوڑ چلے ہیں یہاں عبرت آئندگاں ہم بھی تو اس کے نہیں وہ جو ہمارا نہیں آج ہی درپیش تھا ہم کو سفر رات کا آج ہی افلاک پر کوئی ستارہ نہیں

    مزید پڑھیے

    نظر آتے نہیں ہیں بحر میں ہم

    نظر آتے نہیں ہیں بحر میں ہم یعنی رہتے ہیں اپنی لہر میں ہم کھل رہے ہیں بندھے ہوئے پل سے گھل رہے ہیں خود اپنے زہر میں ہم ہے قفس بھی طلسم خانۂ خواب آ گئے ایک اور شہر میں ہم کسی زنداں میں سوچنا ہے عبث دہر ہم میں ہے یا کہ دہر میں ہم ہو گئی رات سو لیں کچھ سردار جاگ اٹھیں گے پچھلے پہر ...

    مزید پڑھیے

    نئے کپڑے بدل اور بال بنا ترے چاہنے والے اور بھی ہیں

    نئے کپڑے بدل اور بال بنا ترے چاہنے والے اور بھی ہیں کوئی چھوڑ گیا یہ شہر تو کیا ترے چاہنے والے اور بھی ہیں کئی پلکیں ہیں اور پیڑ کئی محفوظ ہے ٹھنڈک جن کی ابھی کہیں دور نہ جا مت خاک اڑا ترے چاہنے والے اور بھی ہیں کہتی ہے یہ شام کی نرم ہوا پھر مہکے گی اس گھر کی فضا نیا کمرہ سجا نئی ...

    مزید پڑھیے

    محبتیں تھیں کچھ ایسی وصال ہو کے رہا

    محبتیں تھیں کچھ ایسی وصال ہو کے رہا وہ خوش خیال مرا ہم خیال ہو کے رہا ہر ایک پردے میں دریافت اس کا حسن کیا پھر اس خزانے سے میں مالا مال ہو کے رہا لہو کی لہر میں شادابیوں کی شدت سے مزاج اس کا مرے حسب حال ہو کے رہا کرم کا سلسلہ جو منقطع تھا غفلت سے بحال کیسے نہ ہوتا بحال ہو کے ...

    مزید پڑھیے

    پڑا نہ فرق کوئی پیرہن بدل کے بھی

    پڑا نہ فرق کوئی پیرہن بدل کے بھی لہو لہو ہی رہا جم کے بھی پگھل کے بھی بدن نے چھوڑ دیا روح نے رہا نہ کیا میں قید ہی میں رہا قید سے نکل کے بھی تہوں کا شور بھی اب سطح پر سنائی دے وہ جوش میں ہے تو پھر جسم و جاں سے چھلکے بھی نئی رتوں میں بھی صابرؔ اداسیاں نہ گئیں خمیدہ سر ہے ہر اک شاخ ...

    مزید پڑھیے

    قسمت میں اگر جدائیاں ہیں

    قسمت میں اگر جدائیاں ہیں پھر کیوں تری یادیں آئیاں ہیں یاں جینے کی صورتیں ہیں جتنی وہ صورتیں سب پرائیاں ہیں فریاد کناں نہیں بس اک میں چاروں ہی طرف دہائیاں ہیں ہر درجے پہ عشق کر کے دیکھا ہر درجے میں بے وفائیاں ہیں اک تیرا برا کبھی نہ چاہا گو ہم میں بہت برائیاں ہیں تقریب وصال ...

    مزید پڑھیے

    وہ صدائیں دیتا رہا ہو میں نے سنا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو

    وہ صدائیں دیتا رہا ہو میں نے سنا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو مجھے لگ رہا ہو جدا مگر وہ جدا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو نہیں کوئی راز یگانگی نہیں کوئی ساز فسانگی مگر ایک ساز‌‌ فسانہ راز یگانہ ہو کہیں یوں نہ ہو میں سمجھتا ہوں اسے خوش نصیب کوئی چومتا ہے اگر صلیب کہ یہ ساز مرگ ہی زندگی کا ترانہ ہو ...

    مزید پڑھیے

    ہر ایک مرحلۂ درد سے گزر بھی گیا

    ہر ایک مرحلۂ درد سے گزر بھی گیا فشار جاں کا سمندر وہ پار کر بھی گیا خجل بہت ہوں کہ آوارگی بھی ڈھب سے نہ کی میں در بدر تو گیا لیکن اپنے گھر بھی گیا یہ زخم عشق ہے کوشش کرو ہرا ہی رہے کسک تو جا نہ سکے گی اگر یہ بھر بھی گیا گزرتے وقت کی صورت ہوا نہ بیگانہ اگر کسی نے پکارا تو میں ٹھہر ...

    مزید پڑھیے

    اپنی یکجائی میں بھی خود سے جدا رہتا ہوں

    اپنی یکجائی میں بھی خود سے جدا رہتا ہوں گھر میں بکھری ہوئی چیزوں کی طرح رہتا ہوں صبح کی سیر کی کرتا ہوں تمنا شب بھر دن نکلتا ہے تو بستر میں پڑا رہتا ہوں دین و دنیا سے نہیں ہے کوئی جھگڑا میرا یعنی میں ان سے الگ اپنی جگہ رہتا ہوں خواہش داد نہیں اور کوئی فریاد نہیں ایک صحرا ہے جہاں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4