ہم سفر کوئی نہیں تو شور و شر کس کے لئے

ہم سفر کوئی نہیں تو شور و شر کس کے لئے
اے مسافر یہ صدائے رہ گزر کس کے لئے


خود سے اب تک باز رکھا میں نے اپنے آپ کو
مر تو جانا تھا مجھے مرتا مگر کس کے لیے


کون آیا ہے مرے پیچھے یہ کیسا وہم ہے
میں ٹھہر جاتا ہوں ہر اک موڑ پر کس کے لیے


یہ جو رنگ نا مرادی کھل رہا ہے چار سو
اے خزاں اس کا سبب کیا ہے یہ زر کس کے لیے


چین باہر بھی نہیں ہے پھر نہ جانے کیوں ظفرؔ
دکھ سا ہوتا ہے کہ لوٹ آیا ہوں گھر کس کے لیے