Sabeeha Farhat Sambhali

صبیحہ فرحت سنبھلی

صبیحہ فرحت سنبھلی کی غزل

    بحر سے دریا بنا دریا سے کوزہ ہو گیا

    بحر سے دریا بنا دریا سے کوزہ ہو گیا مرتبہ کیا تھا تمہاری بزم میں کیا ہو گیا وقت بدلا تو سبھی کچھ الٹا پلٹا ہو گیا پھول کھلتے تھے جہاں کل آج صحرا ہو گیا یہ مرے اسلاف کی معراج الفت تھی کہ جو تیز رو دریا رکا دریا میں رستہ ہو گیا جانے یہ آشفتگی مجھ کو کہاں لے جائے گی آج پھر قلب حزیں ...

    مزید پڑھیے

    مرے شعروں میں عکس زندگی ہے

    مرے شعروں میں عکس زندگی ہے جو دیکھا ہے سدا لکھا وہی ہے مسرت ہے نہ آنکھوں میں نمی ہے طبیعت میں عجب افسردگی ہے لگی تھیں جس نشیمن پر نگاہیں اسی پر تاک کے بجلی گری ہے نہ سمجھے محسنوں کی جو اذیت بھلا کس کام کا وہ آدمی ہے مسافت ہے تھکن ہے اور میں ہوں مرے ہمراہ میری بے کسی ہے ہر اک کے ...

    مزید پڑھیے

    مانجھی بوڑھا ناؤ پرانی

    مانجھی بوڑھا ناؤ پرانی اور ہوائیں ہیں طوفانی اس پر طرہ تاریکی ہے اور ندی میں ہے طغیانی مل پائے گی منزل کیسے برکھا رت ہے گہرا پانی خلق وفا ایثار کی باتیں لگتی ہیں اب مثل کہانی پیری دور خزاں کی مظہر اور بہاراں عہد جوانی فرحتؔ غم کے دو پہلو ہیں خشک لبی اور تر دامانی

    مزید پڑھیے

    ظاہر میں تو مجموعۂ اشعار غزل ہے

    ظاہر میں تو مجموعۂ اشعار غزل ہے باطن میں مہکتا ہوا گلزار غزل ہے مطلع سے بصد شان نمودار غزل ہے دامن میں سمیٹے ہوئے افکار غزل ہے آنکھوں سے لگاؤ کہ اسے دل میں بساؤ احباب کی مانند طرح دار غزل ہے کیسے نہ کریں اہل نظر اس کی ستائش پھولوں سی حسیں اور مہک دار غزل ہے فرحتؔ ہے روا جب سے ...

    مزید پڑھیے