ظاہر میں تو مجموعۂ اشعار غزل ہے
ظاہر میں تو مجموعۂ اشعار غزل ہے
باطن میں مہکتا ہوا گلزار غزل ہے
مطلع سے بصد شان نمودار غزل ہے
دامن میں سمیٹے ہوئے افکار غزل ہے
آنکھوں سے لگاؤ کہ اسے دل میں بساؤ
احباب کی مانند طرح دار غزل ہے
کیسے نہ کریں اہل نظر اس کی ستائش
پھولوں سی حسیں اور مہک دار غزل ہے
فرحتؔ ہے روا جب سے ستم اردو زباں پر
آلام و مصائب میں گرفتار غزل ہے