مانجھی بوڑھا ناؤ پرانی

مانجھی بوڑھا ناؤ پرانی
اور ہوائیں ہیں طوفانی


اس پر طرہ تاریکی ہے
اور ندی میں ہے طغیانی


مل پائے گی منزل کیسے
برکھا رت ہے گہرا پانی


خلق وفا ایثار کی باتیں
لگتی ہیں اب مثل کہانی


پیری دور خزاں کی مظہر
اور بہاراں عہد جوانی


فرحتؔ غم کے دو پہلو ہیں
خشک لبی اور تر دامانی