صبا اکرام کے تمام مواد

4 غزل (Ghazal)

    ان پتھروں کے شہر میں دل کا گزر کہاں

    ان پتھروں کے شہر میں دل کا گزر کہاں لے جائیں ہم اٹھا کے یہ شیشے کا گھر کہاں ہم اپنا نام لے کے خود اپنے ہی شہر میں گھر گھر پکار آئے کھلا کوئی در کہاں جیسے ہر ایک در پہ خموشی کا قفل ہو اب گونجتی ہے شہر میں زنجیر در کہاں ہر وقت سامنے تھا سمندر خلوص کا لیکن کسی نے دیکھا کبھی ڈوب کر ...

    مزید پڑھیے

    چکھو گے اگر پیاس بڑھا دے گا یہ پانی

    چکھو گے اگر پیاس بڑھا دے گا یہ پانی پانی تمہیں ہرگز نہ صباؔ دے گا یہ پانی اک روز ڈبو دے گا مرے جسم کی کشتی مجھ سے مجھے آزاد کرا دے گا یہ پانی پہنچے گا سرابوں کا وہاں بھیس بدل کر صحرا میں بھی ہر لمحہ صدا دے گا یہ پانی برسے گا تو خوشبو یہاں مٹی سے اڑے گی سینے میں مرے آگ لگا دے گا یہ ...

    مزید پڑھیے

    زندگانی ہنس کے طے اپنا سفر کر جائے گی

    زندگانی ہنس کے طے اپنا سفر کر جائے گی یوں اجل کا معجزہ اک روز سر کر جائے گی کیا خبر تھی چاہ اس کی دل میں گھر کر جائے گی مجھ کو خود میرے ہی اندر در بدر کر جائے گی پہلے اپنا خوں تو بھر دوں زندگی کی مانگ میں جب اسے جانا ہی ٹھہرا بن سنور کر جائے گی پھول لے جائے گی سارے توڑ کر خوابوں کے ...

    مزید پڑھیے

    آواز کے پتھر جو کبھی گھر میں گرے ہیں

    آواز کے پتھر جو کبھی گھر میں گرے ہیں آسیب خموشی کے صباؔ چیخ پڑے ہیں پازیب کے نغموں کی وہ رت بیت چکی ہے اب سوکھے ہوئے پتے اس آنگن میں پڑے ہیں چھپ جائیں کہیں آ کہ بہت تیز ہے بارش یہ میرے ترے جسم تو مٹی کے بنے ہیں اس دل کی ہری شاخ پہ جو پھول کھلے تھے لمحوں کی ہتھیلی پہ وہ مرجھا کے ...

    مزید پڑھیے

4 نظم (Nazm)

    ایک مشورہ

    مرے گرد اب لال پیلی دواؤں کی ان شیشیوں سے نہ دیوار چننے کی کوشش کرو تم حصار دعا میں مجھے قید کرنے کی ضد چھوڑ دو اب مرے زخم خوردہ بدن کی نہ تم سوئیوں سے طبیبوں کی پیوند کاری کرو اپنی پہچان کی شکل بگڑی ہوئی لگ رہی ہو تو میری اک اچھی سی تصویر کمرے میں تم ٹانگ لو مجھ کو گھر کے کسی اندھے ...

    مزید پڑھیے

    قطرہ قطرہ تشنگی

    کنوارے کھیت میری خواہشوں کے تشنگی کی دھوپ میں جلتے ہیں سیم اور تھور مایوسی کے کالے قہر کی صورت لہو کا ایک اک قطرہ رگوں سے چوستے جاتے ہیں پیلے موسموں کی چپ بنی ہے بھاگ کی ریکھا کہ صدیوں سے پڑا ہے قحط گیتوں کا جو فصل کٹتے وقت گاتی ہیں تھرکتی ناچتی بستی کی بالائیں یہاں صدیوں سے ...

    مزید پڑھیے

    آئینے کا آدمی

    صبح کے زعفرانی لبوں پر جو شفقت کی ہلکی سی مسکان تھی ایک ٹھٹھری ہوئی رات کی دھند میں کھو چکی ہے مرے چھوٹے بھائی نے مجھ کو لکھا ہے کہ آنگن میں جو نیم کا پیڑ تھا اب کے طوفان میں گر چکا ہے وہاں ٹھنڈی چھاؤں نہیں دھوپ کا سلسلہ مگر کھوج میں نان و نفقہ کی نکلا ہوں ایک کمزور سا آدمی اپنے ...

    مزید پڑھیے

    آشیاں ڈھونڈھتی ہے

    تھکی ہاری چڑیوں کے اک غول کی طرح جب شام اتری گھنے برگدوں پر میری کلپناؤں کے پنچھی لئے اپنی چونچوں میں تنکے اڑے ان پر اسرار اندھی دشاؤں کی جانب جہاں آگ کے جنگلوں میں مری آتما کتنی صدیوں سے بیاکل کوئی آشیاں ڈھونڈھتی ہے

    مزید پڑھیے