صبا اکرام کی غزل

    ان پتھروں کے شہر میں دل کا گزر کہاں

    ان پتھروں کے شہر میں دل کا گزر کہاں لے جائیں ہم اٹھا کے یہ شیشے کا گھر کہاں ہم اپنا نام لے کے خود اپنے ہی شہر میں گھر گھر پکار آئے کھلا کوئی در کہاں جیسے ہر ایک در پہ خموشی کا قفل ہو اب گونجتی ہے شہر میں زنجیر در کہاں ہر وقت سامنے تھا سمندر خلوص کا لیکن کسی نے دیکھا کبھی ڈوب کر ...

    مزید پڑھیے

    چکھو گے اگر پیاس بڑھا دے گا یہ پانی

    چکھو گے اگر پیاس بڑھا دے گا یہ پانی پانی تمہیں ہرگز نہ صباؔ دے گا یہ پانی اک روز ڈبو دے گا مرے جسم کی کشتی مجھ سے مجھے آزاد کرا دے گا یہ پانی پہنچے گا سرابوں کا وہاں بھیس بدل کر صحرا میں بھی ہر لمحہ صدا دے گا یہ پانی برسے گا تو خوشبو یہاں مٹی سے اڑے گی سینے میں مرے آگ لگا دے گا یہ ...

    مزید پڑھیے

    زندگانی ہنس کے طے اپنا سفر کر جائے گی

    زندگانی ہنس کے طے اپنا سفر کر جائے گی یوں اجل کا معجزہ اک روز سر کر جائے گی کیا خبر تھی چاہ اس کی دل میں گھر کر جائے گی مجھ کو خود میرے ہی اندر در بدر کر جائے گی پہلے اپنا خوں تو بھر دوں زندگی کی مانگ میں جب اسے جانا ہی ٹھہرا بن سنور کر جائے گی پھول لے جائے گی سارے توڑ کر خوابوں کے ...

    مزید پڑھیے

    آواز کے پتھر جو کبھی گھر میں گرے ہیں

    آواز کے پتھر جو کبھی گھر میں گرے ہیں آسیب خموشی کے صباؔ چیخ پڑے ہیں پازیب کے نغموں کی وہ رت بیت چکی ہے اب سوکھے ہوئے پتے اس آنگن میں پڑے ہیں چھپ جائیں کہیں آ کہ بہت تیز ہے بارش یہ میرے ترے جسم تو مٹی کے بنے ہیں اس دل کی ہری شاخ پہ جو پھول کھلے تھے لمحوں کی ہتھیلی پہ وہ مرجھا کے ...

    مزید پڑھیے