آئینے کا آدمی
صبح کے زعفرانی لبوں پر
جو شفقت کی ہلکی سی مسکان تھی
ایک ٹھٹھری ہوئی رات کی دھند میں
کھو چکی ہے
مرے چھوٹے بھائی نے
مجھ کو لکھا ہے
کہ آنگن میں جو نیم کا پیڑ تھا
اب کے طوفان میں گر چکا ہے
وہاں ٹھنڈی چھاؤں نہیں
دھوپ کا سلسلہ
مگر کھوج میں نان و نفقہ کی
نکلا ہوں
ایک کمزور سا آدمی
اپنے خوابوں کی بیساکھیوں پر ٹنگا
زندگی بھر
جو سوکھے ہوئے ہونٹ کی پیڑھیوں سے
کنوئیں تک کے
بے انت رستوں پہ چلتا رہا
آج بھی وہ مرے سامنے
آئنے میں کھڑا ہے