Saba Bilgrami

صبا بلگرامی

  • 1955

صبا بلگرامی کے تمام مواد

6 غزل (Ghazal)

    تجربہ ہے مرحلہ ہے حادثہ ہے زندگی

    تجربہ ہے مرحلہ ہے حادثہ ہے زندگی زندگی منزل نہیں ہے راستہ ہے زندگی سامنے ہے اک حقیقت اک ارادہ اک ادا چہرہ ہی چہرہ نہیں ہے آئنہ ہے زندگی کون ہے ہمدرد کس کا یہ بتانا ہے کٹھن ہر قدم پہ ایک تازہ مرحلہ ہے زندگی کوئی حسرت ہے نہ ارماں ہے نہ ہے کوئی امید لگ رہا ہے درد کا ہی تبصرہ ہے ...

    مزید پڑھیے

    اس کے چرچے عام بہت ہیں

    اس کے چرچے عام بہت ہیں گل گلشن گلفام بہت ہیں ویسے تو آرام بہت ہیں لیکن ہم کو کام بہت ہیں رنگ تبسم خوشبو جلوے رت تیرے انعام بہت ہیں ایک کھلونا چابی والا لے تو لوں پر دام بہت ہیں شاید ہو اس پار خموشی اس جانب کہرام بہت ہیں قسطوں میں اب مرنا کیسا جینے کے پیغام بہت ہیں آگے پیچھے کس ...

    مزید پڑھیے

    موسم ہرا بھرا ہے یہ منظر بھی دیکھ لے

    موسم ہرا بھرا ہے یہ منظر بھی دیکھ لے کچھ دیر تازگی میں سنور کر بھی دیکھ لے سچ بات کہنے کے لئے اپنی زباں تو کھول پھر کس طرف سے آتے ہیں پتھر بھی دیکھ لے مانا کہ تشنگی کسی صحرا کی دین ہے فیاض کس قدر ہے سمندر بھی دیکھ لے تو نے بلا کی دھوپ میں کاٹی تمام عمر اب سرد شب کی اوڑھ کے چادر ...

    مزید پڑھیے

    رخ حیات نکھرتا ہے حادثات کے بعد

    رخ حیات نکھرتا ہے حادثات کے بعد خوشی کی صبح بھی آئے گی غم کی رات کے بعد بس اس خطا پہ ہیں میرے خلاف سارے لوگ مرا یقین خدا پر ہے اپنی ذات کے بعد مری طرف نگہ مہر یوں ہی رہنے دے ستم نہ کر میری ہستی پہ التفات کے بعد ہزار طرح کے الزام دیں گے لوگ تجھے پڑیں گے سب ترے چہرے کو تیری بات کے ...

    مزید پڑھیے

    میسر آ گئی ہے آگہی کیا

    میسر آ گئی ہے آگہی کیا رکے ہیں لوگ منزل آ گئی کیا تمہارے ساتھ ہے سارا زمانہ ہماری دوستی کیا دشمنی کیا مروت جب دلوں سے کھو چکی ہو قرابت کیا محلہ کیا گلی کیا طبیعت درد کی جب ہم سفر ہو پڑاؤ کیا سفر کیا خوش دلی کیا میں دل کو کتنی وسعت دے سکوں گا خفا ہو جائیں گے مجھ سے سبھی کیا یہ ...

    مزید پڑھیے

تمام