Saba Akbarabadi

صبا اکبرآبادی

صبا اکبرآبادی کی غزل

    غالباً میرے علاوہ کوئی گزرا بھی نہیں

    غالباً میرے علاوہ کوئی گزرا بھی نہیں تیری منزل میں کہیں نقش کف پا بھی نہیں آپ کی راہ میں دنیا نظر آتی ہے مجھے اک قدم اور جو بڑھ جاؤں تو دنیا بھی نہیں آپ کیا سوچ کے غم اپنا عطا کرتے ہیں ہمت دل تو بہ قدر غم دنیا بھی نہیں تم تو بے مثل ہو توحید محبت کی قسم تم سا کیا ہوگا جہاں میں کوئی ...

    مزید پڑھیے

    جوانی زندگانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

    جوانی زندگانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے یہ اک ایسی کہانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے ہمارے اور تمہارے واسطے میں اک نیا پن تھا مگر دنیا پرانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے عیاں کر دی ہر اک پر ہم نے اپنی داستان دل یہ کس کس سے چھپانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے جہاں دو دل ملے دنیا نے ...

    مزید پڑھیے

    الجھنوں میں کیسے اطمینان دل پیدا کریں

    الجھنوں میں کیسے اطمینان دل پیدا کریں بجلیوں میں رہ کے تنکوں کا بھروسہ کیا کریں ضبط آنسو جب کئے تو اچھلا چہرے پر لہو غم کی موجیں روکنے سے راستہ پیدا کریں کہتے ہیں قصہ زمانے سے یہی تشویش ہے سی لئے ہیں لب مگر ان آنسوؤں کو کیا کریں ہم بھی بندے ہیں ہمیں بھی مقدرت اتنی تو ہے وہ خدا ...

    مزید پڑھیے

    یگانہ بن کے ہو جائے وہ بیگانہ تو کیا ہوگا

    یگانہ بن کے ہو جائے وہ بیگانہ تو کیا ہوگا جو پہچانا تو کیا ہوگا نہ پہچانا تو کیا ہوگا کسی کو کیا خبر آنسو ہیں کیوں چشم محبت میں فغاں سے گونج اٹھے گا جو ویرانہ تو کیا ہوگا ہماری سی محبت تم کو ہم سے ہو تو کیا گزرے بنا دے شمع کو بھی عشق پروانہ تو کیا ہوگا یہی ہوگا کہ دنیا عقل کا ...

    مزید پڑھیے

    اس کو بھی ہم سے محبت ہو ضروری تو نہیں

    اس کو بھی ہم سے محبت ہو ضروری تو نہیں عشق ہی عشق کی قیمت ہو ضروری تو نہیں ایک دن آپ کی برہم نگہی دیکھ چکے روز اک تازہ قیامت ہو ضروری تو نہیں میری شمعوں کو ہواؤں نے بجھایا ہوگا یہ بھی ان کی ہی شرارت ہو ضروری تو نہیں اہل دنیا سے مراسم بھی برتنے ہوں گے ہر نفس صرف عبادت ہو ضروری تو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3