Saba Akbarabadi

صبا اکبرآبادی

صبا اکبرآبادی کی غزل

    جو ہمارے سفر کا قصہ ہے

    جو ہمارے سفر کا قصہ ہے وہ تری رہ گزر کا قصہ ہے صبح تک ختم ہو ہی جائے گا زندگی رات بھر کا قصہ ہے دل کی باتیں زباں پہ کیوں لاؤ گھر میں رہنے دو گھر کا قصہ ہے کوئی تلوار کیا بتائے گی دوش کا اور سر کا قصہ ہے ہوش آ جائے تو سناؤں گا چشم دیوانہ گر کا قصہ ہے چلتے رہنا تو کوئی بات نہ ...

    مزید پڑھیے

    منزل پہ پہنچنے کا مجھے شوق ہوا تیز

    منزل پہ پہنچنے کا مجھے شوق ہوا تیز رستہ ملا دشوار تو میں اور چلا تیز ہاتھوں کو ڈبو آئے ہو تم کس کے لہو میں پہلے تو کبھی اتنا نہ تھا رنگ حنا تیز مجھ کو یہ ندامت ہے کہ میں سخت گلو تھا تجھ سے یہ شکایت ہے کہ خنجر نہ کیا تیز چل میں تجھے رفتار کا انداز سکھا دوں ہمراہ مرے سست قدم مجھ سے ...

    مزید پڑھیے

    تجھ سے دامن کشاں نہیں ہوں میں

    تجھ سے دامن کشاں نہیں ہوں میں اے زمیں آسماں نہیں ہوں میں کارواں میرے بعد آئے گا گرد ہوں کارواں نہیں ہوں میں پھیل سکتا ہوں چھا نہیں سکتا روشنی ہوں دھواں نہیں ہوں میں ناز ہے مجھ پہ میرے صانع کو زحمت رائیگاں نہیں ہوں میں جزو ہوں ایک جاوداں کل کا ہاں اگر جاوداں نہیں ہوں میں اپنی ...

    مزید پڑھیے

    جنوں میں گم ہوئے ہشیار ہو کر

    جنوں میں گم ہوئے ہشیار ہو کر ہمیں نیند آ گئی بیدار ہو کر متاع اصل ہاتھوں سے گنوا دی خراب اندک و بسیار ہو کر ہمیں نے کی تھی صیقل اس نظر پر ہمیں پر گر پڑی تلوار ہو کر جو غنچہ سو رہا تھا شاخ گل پر پریشاں ہو گیا بیدار ہو کر در مقصود بس اک دو قدم تھا کہ رشتہ رہ گیا دیوار ہو کر نہ آئے ...

    مزید پڑھیے

    حسن جو رنگ خزاں میں ہے وہ پہچان گیا

    حسن جو رنگ خزاں میں ہے وہ پہچان گیا فصل گل جا مرے دل سے ترا ارمان گیا تو خداوند محبت ہے میں پہچان گیا دل سا ضدی تری نظروں کا کہا مان گیا آئنہ خانہ سے ہوتا ہوا حیران گیا خود فراموش ہوا جو تمہیں پہچان گیا اب تو مے خانۂ الفت میں چلا آیا ہوں اس سے کیا بحث رہا یا میرا ایمان گیا اپنے ...

    مزید پڑھیے

    اشک باری نہیں فرقت میں شررباری ہے

    اشک باری نہیں فرقت میں شررباری ہے آنکھ میں خون کا قطرہ ہے کہ چنگاری ہے ہر نفس زیست گزر جانے کا غم طاری ہے موت کا خوف بھی اک روح کی بیماری ہے باوجودیکہ محبت کوئی زنجیر نہیں پھر بھی دل کو مرے احساس گرفتاری ہے کچھ اس انداز سے اس نے غم فرقت بخشا جیسے یہ بھی کوئی انعام وفاداری ...

    مزید پڑھیے

    اجل ہوتی رہے گی عشق کر کے ملتوی کب تک

    اجل ہوتی رہے گی عشق کر کے ملتوی کب تک مقدر میں ہے یا رب آرزوئے خود کشی کب تک تڑپنے پر ہمارے آپ روکیں گے ہنسی کب تک یہ ماتھے کی شکن کب تک یہ ابرو کی کجی کب تک کرن پھوٹی افق پر آفتاب صبح محشر کی سنائے جاؤ اپنی داستان زندگی کب تک دیار عشق میں اک قلب سوزاں چھوڑ آئے تھے جلائی تھی جو ہم ...

    مزید پڑھیے

    تم نے رسم جفا اٹھا دی ہے

    تم نے رسم جفا اٹھا دی ہے ہمیں کس جرم کی سزا دی ہے شمع امید کیوں جلا دی ہے عشق تاریکیوں کا عادی ہے آپ نے خود مجھے صدا دی ہے یا مری قوت ارادی ہے ہم تو مدت کے مر گئے ہوتے موت نے زندگی بڑھا دی ہے اب دعا پر بھی اعتماد نہیں نا مرادی سی نا مرادی ہے تجھ سا بیداد گر کہاں ہوگا لب ہر زخم نے ...

    مزید پڑھیے

    آئینہ بن جائیے جلوہ اثر ہو جائیے

    آئینہ بن جائیے جلوہ اثر ہو جائیے سامنے وہ ہوں تو سر تا پا نظر ہو جائیے سوز دل سے گوشۂ تنہائی میں کیا فائدہ اس طرح جلیے چراغ رہ گزر ہو جائیے اس اداسی کا دھندلکا ختم ہو شاید کبھی شام سے پہلے ہی عنوان سحر ہو جائیے منزل الفت پہ دل تنہا پہنچ سکتا نہیں آپ اگر چاہیں تو میرے ہم سفر ہو ...

    مزید پڑھیے

    اس رنگ میں اپنے دل ناداں سے گلہ ہے

    اس رنگ میں اپنے دل ناداں سے گلہ ہے جیسے ہمیں کل عالم امکاں سے گلہ ہے کس آنکھ نے سمجھا مری بے بال و پری سے جو کچھ مجھے دیوار گلستاں سے گلہ ہے آ خنجر دل دار مرے دل کو سنا دے شاید تجھے کچھ میری رگ جاں سے گلہ ہے چھوڑا ہے کہاں ساتھ مرے دست جنوں کا کم مائیگیٔ دامن امکاں سے گلہ ہے کہتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3