Saba Akbarabadi

صبا اکبرآبادی

صبا اکبرآبادی کی غزل

    ہے جو درویش وہ سلطاں ہے یہ معلوم ہوا

    ہے جو درویش وہ سلطاں ہے یہ معلوم ہوا بوریا تخت سلیماں ہے یہ معلوم ہوا دل آگاہ پشیماں ہے یہ معلوم ہوا علم خود جہل کا عرفاں ہے یہ معلوم ہوا اپنے ہی واہمے کے سب ہیں اتار اور چڑھاؤ نہ سمندر ہے نہ طوفاں ہے یہ معلوم ہوا ڈھونڈنے نکلے تھے جمعیت خاطر لیکن شہر کا شہر پریشاں ہے یہ معلوم ...

    مزید پڑھیے

    سونا تھا جتنا عہد جوانی میں سو لیے

    سونا تھا جتنا عہد جوانی میں سو لیے اب دھوپ سر پہ آ گئی ہے آنکھ کھولیے یاد آ گیا جو اپنا گریباں بہار میں دامن سے منہ لپیٹ لیا اور رو لیے اب اور کیا کریں ترے ترک ستم کے بعد خود اپنے دل میں آپ ہی نشتر چبھو لیے پروانۂ رہائی خامہ تو مل گیا لیکن حضور اب در زنداں بھی کھولیے اپنے لیے ...

    مزید پڑھیے

    پوچھیں ترے ظلم کا سبب ہم

    پوچھیں ترے ظلم کا سبب ہم اتنے تو نہیں ہیں بے ادب ہم الزام نہیں ہے فصل گل پر خود اپنے جنوں کا ہیں سبب ہم ساحل پہ سوائے خاک کیا تھا غرقاب ہوئے ہیں تشنہ لب ہم کرتے ہیں تلاش آدمیت دنیا میں ہیں آدمی عجب ہم فرصت ہو تو آ کے دیکھ جاؤ مدت سے پڑے ہیں جاں بلب ہم باہر سے ہیں مومن ...

    مزید پڑھیے

    اجالا کر کے ظلمت میں گھرا ہوں

    اجالا کر کے ظلمت میں گھرا ہوں چراغ رہ گزر تھا بجھ گیا ہوں تری تصویر کیسے بن سکے گی ہر اک سادہ ورق کو دیکھتا ہوں مجھے طوفان سے شکوہ نہیں ہے ہلاک بے رخیٔ ناخدا ہوں ترے تیروں کا اندازہ کروں گا ابھی تو زخم دل کے گن گا رہا ہوں تمہیں سورج نظر آئیں گے اپنے میں آئینہ ہوں اور ٹوٹا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    ہجوم غم ہے قلب غمزدہ ہے

    ہجوم غم ہے قلب غمزدہ ہے مری محفل مرا خلوت‌ کدہ ہے ازل سے آج تک کوئی نہ سمجھا حیات مختصر کیا شعبدہ ہے بہکنے دے ذرا رندوں کو ساقی یہی ہنگامہ جان مے کدہ ہے کہاں دیکھو گے تم اپنی تجلی جو آئینہ ہے وہ حیرت زدہ ہے نظر کیا جام و مینا پر اٹھاؤں نگاہ دوست پورا مے کدہ ہے ادھر بھی رخ کر ...

    مزید پڑھیے

    کثرت جلوہ کو آئینۂ وحدت سمجھو

    کثرت جلوہ کو آئینۂ وحدت سمجھو جس کی صورت نظر آئے وہی صورت سمجھو غم کو غم اور نہ مصیبت کو مصیبت سمجھو جو در دوست سے مل جائے غنیمت سمجھو جھک کے جو سینکڑوں فتنوں کو جگا سکتی ہیں وہ نگاہیں اگر اٹھیں تو قیامت سمجھو نہیں ہوتے ہیں ریاکاری کے سجدے مجھ سے میں اگر سر نہ جھکاؤں تو عبادت ...

    مزید پڑھیے

    چلا چل مہلت آرام کیا ہے

    چلا چل مہلت آرام کیا ہے مسافر اور تیرا کام کیا ہے ہمارا واسطہ ہے ان کے ڈر سے ہمیں سارے جہاں سے کام کیا ہے تمہارا حسن تو ہے غیر فانی ہمارے عشق کا انجام کیا ہے خدا کا نام لینا چاہتا ہوں مگر میرے خدا کا نام کیا ہے سواد شام مے خانہ سلامت بیاض جامۂ احرام کیا ہے تم اپنے آئینے سے ...

    مزید پڑھیے

    جو دیکھیے تو کرم عشق پر ذرا بھی نہیں

    جو دیکھیے تو کرم عشق پر ذرا بھی نہیں جو سوچیے کہ خفا ہیں تو وہ خفا بھی نہیں وہ اور ہوں گے جنہیں مقدرت ہے نالوں کی ہمیں تو حوصلۂ آہ نارسا بھی نہیں حد طلب سے ہے آگے جنوں کا استغنا لبوں پہ آپ سے ملنے کی اب دعا بھی نہیں حصول ہو ہمیں کیا مدعا محبت میں ابھی سلیقۂ اظہار مدعا بھی ...

    مزید پڑھیے

    اس کا وعدہ تا قیامت کم سے کم

    اس کا وعدہ تا قیامت کم سے کم اور یہاں مرنے کی فرصت کم سے کم سہ سکے درد محبت کم سے کم دل میں اتنی تو ہو طاقت کم سے کم اس کی یادوں سے کہاں ہے دشمنی شمع جلتی شام فرقت کم سے کم اس کے ملنے سے نہ ہوتی روشنی گھٹ تو جاتی غم کی ظلمت کم سے کم دیکھنے سے ان کے یہ حاصل ہوا ہو گئی اپنی زیارت کم ...

    مزید پڑھیے

    پوری مرے جنوں کی ضرورت نہ کر سکے

    پوری مرے جنوں کی ضرورت نہ کر سکے صحرائے جاں بھی ہو تو کفالت نہ کر سکے سعی و عمل کی روح محبت کے ساتھ تھی وہ کچھ نہ کر سکے جو محبت نہ کر سکے دنیا میں جتنے غم ملے دل میں بسا لیے ہم صرف تیرے غم پہ قناعت نہ کر سکے اپنا ہی حال زار سناتے رہے تجھے لیکن ترے ستم کی شکایت نہ کر سکے تاراج کر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3