Saba Akbarabadi

صبا اکبرآبادی

صبا اکبرآبادی کے تمام مواد

25 غزل (Ghazal)

    ہے جو درویش وہ سلطاں ہے یہ معلوم ہوا

    ہے جو درویش وہ سلطاں ہے یہ معلوم ہوا بوریا تخت سلیماں ہے یہ معلوم ہوا دل آگاہ پشیماں ہے یہ معلوم ہوا علم خود جہل کا عرفاں ہے یہ معلوم ہوا اپنے ہی واہمے کے سب ہیں اتار اور چڑھاؤ نہ سمندر ہے نہ طوفاں ہے یہ معلوم ہوا ڈھونڈنے نکلے تھے جمعیت خاطر لیکن شہر کا شہر پریشاں ہے یہ معلوم ...

    مزید پڑھیے

    سونا تھا جتنا عہد جوانی میں سو لیے

    سونا تھا جتنا عہد جوانی میں سو لیے اب دھوپ سر پہ آ گئی ہے آنکھ کھولیے یاد آ گیا جو اپنا گریباں بہار میں دامن سے منہ لپیٹ لیا اور رو لیے اب اور کیا کریں ترے ترک ستم کے بعد خود اپنے دل میں آپ ہی نشتر چبھو لیے پروانۂ رہائی خامہ تو مل گیا لیکن حضور اب در زنداں بھی کھولیے اپنے لیے ...

    مزید پڑھیے

    پوچھیں ترے ظلم کا سبب ہم

    پوچھیں ترے ظلم کا سبب ہم اتنے تو نہیں ہیں بے ادب ہم الزام نہیں ہے فصل گل پر خود اپنے جنوں کا ہیں سبب ہم ساحل پہ سوائے خاک کیا تھا غرقاب ہوئے ہیں تشنہ لب ہم کرتے ہیں تلاش آدمیت دنیا میں ہیں آدمی عجب ہم فرصت ہو تو آ کے دیکھ جاؤ مدت سے پڑے ہیں جاں بلب ہم باہر سے ہیں مومن ...

    مزید پڑھیے

    اجالا کر کے ظلمت میں گھرا ہوں

    اجالا کر کے ظلمت میں گھرا ہوں چراغ رہ گزر تھا بجھ گیا ہوں تری تصویر کیسے بن سکے گی ہر اک سادہ ورق کو دیکھتا ہوں مجھے طوفان سے شکوہ نہیں ہے ہلاک بے رخیٔ ناخدا ہوں ترے تیروں کا اندازہ کروں گا ابھی تو زخم دل کے گن گا رہا ہوں تمہیں سورج نظر آئیں گے اپنے میں آئینہ ہوں اور ٹوٹا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    ہجوم غم ہے قلب غمزدہ ہے

    ہجوم غم ہے قلب غمزدہ ہے مری محفل مرا خلوت‌ کدہ ہے ازل سے آج تک کوئی نہ سمجھا حیات مختصر کیا شعبدہ ہے بہکنے دے ذرا رندوں کو ساقی یہی ہنگامہ جان مے کدہ ہے کہاں دیکھو گے تم اپنی تجلی جو آئینہ ہے وہ حیرت زدہ ہے نظر کیا جام و مینا پر اٹھاؤں نگاہ دوست پورا مے کدہ ہے ادھر بھی رخ کر ...

    مزید پڑھیے

تمام