Riyaz Latif

ریاض لطیف

ممتاز مابعد جدید شاعر۔ گجرات میں مقیم

One of the most prominent post-modern poets, living in Gujrat.

ریاض لطیف کی نظم

    نا مکمل تعارف

    اور جنموں سے ترے اندر چھپا تھا وہ بھی میں اور ترے اظہار سے باہر اڑا تھا وہ بھی میں اور تجھ سے تجھ تلک جو فاصلہ تھا وہ بھی میں اور سارے فاصلوں میں راستہ تھا وہ بھی میں اور تیری رات کی زد پر جلا تھا وہ بھی میں اور ایوان فلک میں جو بجھا تھا وہ بھی میں اور کھنڈر کے دل میں جو نغمہ سرا تھا ...

    مزید پڑھیے

    مستقبل کی آنکھ

    میرے ماضی کی آنکھ مستقبل اور یہ میرا ثبوت بوند جو پہلے سمندر تھی کبھی یہ ہوائیں جو کبھی تھیں سانسیں اور اس پیڑ کی تنہائی مری آواز کے پانی میں کبھی بھیگے گی مرے ماضی کی آنکھ مستقبل اور یہ میرا ثبوت وقت ناپید سے آتے جاتے اس کی تاریخ میں سو جاؤں گا میں اگر تھا تو میں ہو جاؤں گا

    مزید پڑھیے

    وینس

    پہنا کے زنجیر آبی بنا تاب کی اب بھی جکڑے رکھا ہے مجھے پانیوں نے نفس میرا پانی مری روح پانی مرے عکس کی لہر در لہر سطحوں میں سیال پتوار کھولے ہیں در اور دریچوں کی تاریخ کے مرتعش مرتعش اپنی پھیلی رگوں کی فراوانیوں میں بہاتا ہوں میں نغمہ زن کشتیوں کے چراغ آسمانوں کا آئینہ سر پہ ...

    مزید پڑھیے

    معذرت

    مجھے معاف کرنا ہواؤں کے پرسوز چہرو کہ میں نے تمہارے فلک در فلک تیوروں کا سراب بھی پایا نہیں ہے مجھے معاف کرنا ستاروں کے سایو تمہاری سیاہی کے بوسیدہ نقطوں میں ڈھلنے سے اب تک میں قاصر رہا ہوں غیابوں کی نظروں سے تنہا بہا ہوں مجھے معاف کرنا محبت کے حامل سرابو کہ بانہوں میں آ کر بسا ...

    مزید پڑھیے

    صابن

    دو عالم کی سیاحی میں گزرے ہیں نکہت نکہت میرے لب اجلے پستانوں سے زیر ناف گھنی راتوں کے ایوانوں سے بھیگی بھیگی کھال کی اندھی رونق سے واقف ہوں میں بھی جسموں سے سیلابی پیچ و خم سے گھس کر لمحہ لمحہ جان گنوائی ہے میں نے بھی جھاگ بنا کر ہستی اپنی مٹی کے سپنے دھوتا ہوں تیرے خلیوں کے حلقوں ...

    مزید پڑھیے

    بنارس

    بھٹکتی ہوئی وقت کی آتمائیں ترے گھاٹ کے پتھروں کی زباں سے یگوں کی صداؤں کی صورت ابھر کر گھلی جا رہی ہے بجھے پانیوں میں تری سانس کی شاہراہوں پر پھوٹی وہی تنگ گلیاں، وہ گلیوں میں گلیاں! کہ جیسے رگوں کا بنے جال کوئی جہاں لاکھ بھٹکو، نہ کوئی سفر ہو سفر فاصلہ ہے، سفر مرحلہ ہے یہیں پر ...

    مزید پڑھیے

    اس پار

    چلے آئیے زبانوں کی سرحد کے اس پار جہاں بس خموشی کا دریا مچلتا ہے اپنے میں تنہا خود اپنے عدم ہی میں زندہ زبانوں کی سرحد کے اس پار کسی کی بھی آمد نہیں ہے بس اک جال پیہم حدوں کا مگر کوئی سرحد نہیں ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2