اس پار ریاض لطیف 07 ستمبر 2020 شیئر کریں چلے آئیے زبانوں کی سرحد کے اس پار جہاں بس خموشی کا دریا مچلتا ہے اپنے میں تنہا خود اپنے عدم ہی میں زندہ زبانوں کی سرحد کے اس پار کسی کی بھی آمد نہیں ہے بس اک جال پیہم حدوں کا مگر کوئی سرحد نہیں ہے